بھارتی حکومت نئی اسکریننگ پالیسی کے تحت سرمایہ کاری سے متعلق تقریباً 50 تجاویز پر نظر ثانی کر رہی ہے جن کا تعلق چینی کمپنیوں سے ہے۔ رائٹرز کا کہنا ہے کہ یہ انکشاف معاملے سے آگاہی رکھنے والے تین ذرائع نے کیا ہے۔
نئے قوانین کے تحت، جن کا اعلان بھارت نے اپریل میں کیا تھا، ہمسایہ ملکوں میں قائم اداروں کی تمام سرمایہ کاری کو بھارتی حکومت کی منظوری درکار ہو گی، چاہے اس کا تعلق نئی یا اضافی سرمایہ کاری سے ہی کیوں نہ ہو۔
چین بھارت میں سرمایہ کاری کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے اور چینی کمپنیاں اور بیجنگ ان نئے قوانین پر نکتہ چینی کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ امتیازی پالیسی ہے۔
سرمایہ کاری کے نئے قوانین کا مقصد کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے دوران موقع پرستی پر مبنی فائدہ اٹھانے کی حوصلہ شکنی ہے۔ تاہم صنعتی شعبے کا کہنا تھا کہ پچھلے مہینے متنازع سرحد پر ایک جھڑپ کے بعد، جس میں 20 بھارتی فوجی ہلاک ہو گئے تھے، دونوں ملکوں کے تعلقات کو نقصان پہنچا ہے، جس سے منظوری ملنے میں مزید تاخیر ہو سکتی ہے۔
رائٹرز کا کہنا ہے کہ نئے قوانین کا مسودہ تیار کرنے والی وزارت تجارت کے صنعتوں سے متعلق ڈپارٹمنٹ نے اس بارے میں پوچھے گئے سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔
ذرائع نے رازداری کی بنا پر ان کمپنیوں کے نام بتانے سے انکار کر دیا ہے، جن کی منظوری التوا میں پڑی ہوئی ہے۔
تاہم عہدے داروں اور دوسرے دو ذرائع نے کہا ہے کہ قوانین کی تبدیلی کے بعد سے چینی سرمایہ کاروں کی جانب سے دی جانے والی فنڈنگ کی تقریباً 40 سے 50 درخواستیں نظر ثانی کے عمل سے گزر رہی ہیں۔
ایک اور ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت کے کئی ادارے، جن میں چین میں بھارتی قونصلیٹ بھی شامل ہے، تجاویز پر مزید وضاحتوں کے لیے چینی کمپنیوں اور ان کے نمائندوں سے رابطے میں ہیں۔
بھارت کی ایک لا فرم کے ماہر الوک سونکر کا کہنا ہے کہ حالیہ ہفتوں کم از کم 10 چینی کمپنیوں نے بھارت میں سرمایہ کاری سے متعلق مشورے کے لیے ان کی فرم سے رابطہ کیا ہے، لیکن وہ بھارت کی پالیسی کے نقطہ نظر کے متعلق مزید وضاحت کا انتظار کر رہی ہیں۔
پچھلے ہفتے بھارت نے 59 کمپنیوں پر پابندی لگا دی تھی، جو زیادہ تر چین کی ایپ کمپنیاں تھیں اور ان میں بائٹڈینس کی ٹک ٹاک اور ٹین سنیٹ کی وی چیٹ بھی شامل تھی۔ یہ اقدام پچھلے مہینے سرحدی بحران پیدا ہونے کے بعد سے انٹرنیٹ پر چین کو ہدف بنانے کی اب تک کی سب سے بڑی کارروائی تھی۔ اس اقدام سے جنوبی ایشیا کی مارکیٹ میں چینی کاروباروں کی توسیع کے منصوبوں کو ممکنہ طور پر بڑا دھچکا لگا ہے۔
ایک ریسرچ گروپ بروکنگز نے مارچ میں کہا تھا کہ چینی کمپنیوں کے بھارت میں 26 ارب ڈالر سے زیادہ سرمایہ کاری کے منصوبے ہیں۔