بچے کی زندگی میں سب سے اہم آواز اس کی ماں کی آواز ہے اور اب سائنس نے بھی تصدیق کردی ہے کہ واقعی ماں کی آواز میں کچھ خاص ہے!
اسٹین فورڈ یونیورسٹی اسکول آف میڈیسن سے سے تعلق رکھنے والے محققین نے اپنے سائنسی پیپر میں پیدائش کے بعد ایک سکینڈ سے بھی کم وقت کے اندر اندر ماں کی آواز کی سماعت کی اہمیت کو ظاہر کیا ہے۔
ڈپارٹمنٹ آف سائیکاٹری اور بیہیویورل سائنسز سے وابستہ سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے دریافت کیا کہ بچوں کے دماغ نے اجنی عورتوں کی آوازوں کے مقابلے میں اپنی ماں کی آواز کے لیے زیادہ مضبوط ردعمل ظاہر کیا تھا حتی کہ بچوں نے ماں کی آواز کو لمحہ بھر کے لیے سنا تھا۔
'پروسیڈنگ آف دا نیشنل اکیڈمی آف سائنس' کےجریدے میں 16 مئی کو شائع ہونے والی تحقیق کے ایک اہم مصنف ڈینیئل اے ابرامس نے کہا کہ''ہم جانتے ہیں کہ ماں کی آواز کی سماعت بچوں میں جذباتی سکون کا ایک اہم ذریعہ ہوسکتی ہے اور یہاں ہم اس کے پیچھے موجود حیاتیاتی نظام دکھا رہے ہیں.''
انھوں نے لکھا کہ یہاں ہم نے بچوں کے دماغ کے ان مخصوص سرکٹس کی نشاندھی کی ہے جو صرف ماں کی آواز سننے پر متحرک ہوتے ہیں جبکہ ہمیں ایسے سائنسی شواہد ملے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ دماغ کی یہ سرگرمیاں بچے کے سماجی میل جول کی صلاحیتوں کی پیشن گوئی کرسکتی ہیں۔
بچوں کے دماغ کے اندرونی افعال کو دیکھنے کے لیے محققین نے سات سے 12 سال کے درمیان عمروں کے 24 صحت مندبچوں کے دماغ کے اسکین کے لیے ایم آر آئی کا استعمال کیا۔
اسکین کے دوران بچوں کو نامعقول الفاظ کی مختصر دورانیہ کی ریکارڈنگ سنائی گئی جس میں سے کچھ آوازیں ان کی ماؤں کی تھیں اس کے علاوہ دوسری آوازیں ایسی خواتین کی تھیں جنھیں بچے نہیں جانتے تھے۔
اگرچہ یہ ریکارڈنگ ایک سکینڈ سے بھی مختصر تھیں لیکن بچے تقریبا مکمل طور پر 97 فیصد سے زیادہ شرح کے ساتھ اپنی ماؤں کی آوازوں کی درست شناخت کر سکتے تھے۔
محققین نے کہا کہ ہمارے نتائج کی توثیق پچھلوں مطالعوں سے بھی ہوتی ہے جس میں دکھایا گیا تھا کہ نومولود بچے زندگی کے پہلے دن دوسری آوازوں کے بیچ میں اپنی ماں کی آواز کی شناخت کرنے کے قابل تھے۔
تاہم نئی تحقیق کے نتائج سے یہ بات سامنے آئی کہ ماں کی آواز سننے سے بچوں کے دماغ کے ایک سے زیادہ نظام متحرک ہوئے تھے جن کا سماعت سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔
محققین کو پتا چلا کہ جب بچے نے ماں کی آواز سنی تو اس کے دماغ کے سمعی اور صوتی منتخب حصوں کے ساتھ ساتھ وہ حصے جو جذبات اور چہرے کی شناخت سے متعلق ہیں زیادہ روشن ہوئے تھے، جس سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ ماں کی آواز بچے کے دماغ میں وسیع پیمانے میں نشر ہوتی ہے۔
اسٹین فورڈ یونیورسٹی سے منسلک تحقیق کے ایک دوسرے مصنف پروفیسر ونود مینین نے کہا کہ ''اب تک کسی نے یہ نہیں دیکھا تھا کہ دماغی سرکٹس اس کے ذمہ دار ہوسکتے ہیں اور دماغ کے کس حد تک حصے اس کام میں مشغول تھے۔ یہ ہمارے لیے کافی حیرت انگیز تھا۔''
انھوں نے مزید کہا کہ دماغ کے اتنے زیادہ حصوں کی شمولیت سے ہمیں یہ جاننے میں مدد مل سکتی ہے کہ کیوں بچے ماں کی آواز کی پہچان فورا سے پیشتر کر لیتے ہیں۔
مطالعے کے دوران محققین نے آوازیں سننے پر بچوں کے دماغ میں جو سرگرمی ہوئی تھی اسے نوٹ کیا اور دماغی سرکٹ میں ہونے والی سرگرمیوں کا جائزہ لیا اور دماغ کے حصوں کے درمیان رابطوں کو دیکھا۔
اس طرح ہر ایک بچے کے ذہن میں آواز سننے کا ایک نمونہ بنا تھا جسے نوٹ کرلیا گیا۔ اس سے محققین نے ہر بچے کے انفرادی یا مخصوص عصبی فنگر پرنٹس کو تلاش کیا جس سے بچوں کی سماجی بات چیت کی صلاحیت کا اندازا لگایا جاسکتا ہے۔
نتائج سے واضح ہوا کہ دماغ کی زیادہ سرگرمیوں کے ساتھ بچے سماجی طور پر بات چیت میں بہتر تھے۔