رسائی کے لنکس

امریکی صدور کی حفاظت کرنے والی ایجنسی کا میوزیم، جہاں ہر کوئی داخل نہیں ہوسکتا


سیکرٹ ایجنسی کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر میں قائم دفتر سے حملے کے بعد ملبے سے نکالی گئی اشیا۔
سیکرٹ ایجنسی کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر میں قائم دفتر سے حملے کے بعد ملبے سے نکالی گئی اشیا۔

عجائب گھر یا میوزیم میں محفوظ تاریخ کے اہم رازوں تک عام رسائی ہوتی ہے لیکن امریکہ کی تاریخ کی ابتدائی دور میں بننے والے ایک خفیہ ادارے کے چھوٹے سے میوزیم کا معاملہ بالکل الگ ہے۔

یہاں زیادہ تر صرف ملازمین، سابق ملازمین، ان کے اہلِ خانہ ، مہمان اور قانون نافذ کرنےو الے اداروں سے تعلق رکھنے والوں ہی کو داخل ہونے کی اجازت ہے۔

یہ عجائب گھر ’یو ایس سیکرٹ سروس‘ کے دفتر کے ایک ہال میں قائم ہے جس کی عام سی نظر آنے والی عمارت میں محفوظ اشیا امریکہ کی تاریخ کے بہت ہی خاص مواقع کی یادگار ہیں۔

صدر کی حفاظت کرنے والی ایجنسی

یو ایس سیکرٹ سروس کے مؤرخ اور اس کا تاریخی ریکارڈ رکھنے والے آرکائیوسٹ مائیک سمپسن کا کہنا ہے ہے کہ محدود وسائل اور سیکیورٹی تحفظات کی وجہ سے ایجنسی کے میوزیم تک رسائی کو بھی محدود رکھا گیا ہے۔

یہاں ایک کمرے جتنی جگہ پر مختلف تاریخی اشیا رکھی ہیں جو سیکرٹ سروس کی تاریخ کے بارے میں بہت کچھ بتاتی ہیں۔ اس ایجنسی کو صدرو کی سیکیورٹی کی وجہ سے شہرت ملی البتہ اسے قائم کرنے کا مقصد مالی فراڈ اور جعل سازی کا مقابلہ کرنا تھا۔

تاریخ سے جڑا المیہ

اس ایجنسی کے قیام سے بھی ایک المیہ جڑا ہے۔ صدر ابراہم لنکن نے جب اس سیکرٹ سروس کے قیام کی منظوری دی تھی اس کے کچھ ہی گھنٹوں بعد ان کا قتل ہو گیا تھا۔

یو ایس سیکرٹ سروس کے ایک اور مؤرخ جیسن کینڈرک بتاتے ہیں کہ 14 اپریل 1865 کو اس وقت کے ٹریژری سیکریٹری نے صدر لنکن کو مالی امور میں فراڈ اور جعل سازی روکنے کے لیے ایک ایجنسی کے قیام کی تجویز دی تھی۔

وہ بتاتے ہیں کہ یہ خانہ جنگی کے بعد دور تھا اور اس مالیاتی جعل سازی عروج پر تھی۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت امریکہ میں زیرِ گردش کرنسی میں سے ایک تہائی نوٹ جعلی تھے۔

میوزیم میں رکھا 10 ڈالر کے سونے کے جعلی سکوں کا پتا لگانے والا آلہ۔
میوزیم میں رکھا 10 ڈالر کے سونے کے جعلی سکوں کا پتا لگانے والا آلہ۔

وہ بتاتے ہیں کہ صدر ابراہام لنکن نے اس تجویز پر اسی روز سیکرٹ ایجنسی کے قیام کی زبانی اجازت دے دی تھی۔ البتہ انہوں نے اس کے لیے باقاعدہ تحریری حکم نامہ جاری نہیں کیا تھا اور اس سے قبل ہی فورڈز تھیٹر میں ان کا قتل ہوگیا۔

ذمے داریوں میں اضافہ

ایک اور صدر ولیم مک کینلی کے 1901 میں قتل کے بعد سیکرٹ سروس کو سرکاری سطح پر امریکی صدر کی حفاظت کی ذمے داریاں تفویض کردی گئی تھیں۔

البتہ اس سے پہلے بھی اس ایجنسی کو کئی اہم ذمے داریاں دی گئی تھیں کیوں کہ قانون کے نفاذ اور انٹیلی جنس کے لیے ایف بی آئی اور سی آئی اے قائم نہیں ہوئی تھیں۔

واضح رہے کہ فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) 1908 اور سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) 1947 میں بنائی گئی تھیں۔

جیسن کینڈرک کا کہنا ہے کہ اس دور میں یہ ایجنسی جائیداد میں گھپلوں، دستاویزات کی جعل سازی، شراب کے غیر قانونی بیوپار وغیرہ جیسی خلافِ قانون سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے کام کرتی تھی۔

ان کا کہنا ہے کہ یہی ایجنسی اس دور میں سفید فام نسل برست تنظیم ’کو کلس کلین‘ کی سرگرمیوں پر نظر رکھتی تھی۔ امریکہ اور اسپین کی جنگ، پہلی عالمی جنگ اور کسی حد تک دوسری عالمی جنگ میں بھی یہ جاسوسی کو روکنے کے لیے سرگرم رہی۔ 1868 میں یہی سیکرٹ سروس امریکہ کی وفاقی حکومت کے خلاف ہونے والے جرائم کی تحقیقات بھی کرتی تھی۔

صدر پر ہونے والے حملوں کی یادگاریں

اس میوزیم میں رکھی بعض اشیا کا تعلق جعل سازی کا سراغ لگانے سے ہے۔یہاں بعض ایسی اشیا بھی رکھی ہیں جن سے امریکہ کے صدور کی زندگیوں کو لاحق خطرات کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔

مثلاً 1981 میں صدر ریگن پر قاتلانہ حملے کے دوران ان کی لیموزین کی کھڑکی یہاں محفوظ رکھی گئی ہے جس پر حملہ آور کی گولی لگی تھی۔ اسی طرح 1975 میں صدرجیرالڈ فورڈ پر سان فرانسسکو میں ہونے والے قاتلانہ حملے کے لیے استعمال ہونے والی پستول بھی اس میوزیم میں محفوظ ہے۔

صدر ریگن کی گاڑی کا شیشہ جس پر گولی کا نشان بھی ہے۔
صدر ریگن کی گاڑی کا شیشہ جس پر گولی کا نشان بھی ہے۔

آج بھی یہ سیکرٹ سروس سربراہانِ مملکت، غیر ملکی اہم شخصیات اور قومی سلامتی سے متعلق خصوصی تقریبات کی حفاظت کی ذمے داریاں ادا کرتی ہے۔

اس کے علاوہ امریکہ کے مالیاتی نظام کی حفاظت بھی اس ایجنسی کی ذمے دارویں میں شامل ہے جس میں بعض نوعیت کے سائبر کرائمز کا انسداد بھی شامل ہے۔

اس ایجنسی کا ’تھریٹ اسیسمنٹ سینٹر‘ مقامی محکموں کے ساتھ مل کر ملک گیر سطح پر اسکولوں میں پُرتشدد واقعات اور حملوں کو روکنے کے لیے بھی کام کرتا ہے۔

ان ذمے داریوں کی ادائیگی میں کئی مرتبہ اس ایجنسی کے لیے کام کرنے والوں کو اپنی جان بھی خطرے میں ڈالنا پڑتی ہے۔ میوزیم کی ایک دیوار پر ایسے 40 مردوخواتین کی تصاویر لگائی گئی ہیں جنہوں نے فرائض کی انجام دہی کے دروان اپنی جان دی۔

ماضی و حال کی عکاسی

سیکرٹ ایجنسی کے مؤرخ سیمپسن کا کہنا ہے کہ یہ ادارہ دہشت گردی کی زد میں بھی آیا ہے۔19 اپریل 1995 کو ریاست اوکلا ہوما میں کیے گئے بم حملے میں ایجنسی کا فیلڈ آفس متاثر ہوا تھا جس میں چھ اہلکاروں کی جان گئی تھی۔

وہ بتاتے ہیں کہ ایجنسی کا ایک دفتر ورلڈ ٹریڈ سینٹر میں بھی تھا۔ نائن الیون کو جب دہشت گردوں نے ان عمارتوں کو نشانہ بنایا تو اس میں ایجنسی کے ایک اسپیشل آفیسر کی بھی جان گئی۔ اس لیے میوزیم میں اس سانحے کی یادگار کے طور پر ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی عمارت کے ملبے کا ایک ٹکڑا بھی رکھا گیا ہے۔

سیمپسن کے مطابق میوزیم کا یہ چھوٹا سا ہال اس ایجنسی کی تاریخ اور حال کے بارے میں بہت کچھ بتاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بطور ادارہ یہ سیکرٹ ایجنسی کن ارتقائی مراحل سے گزری ہے۔

لیکن امریکہ میں خفیہ اداروں کی تاریخ سے متعلق اہم معلومات کے اس خزانے تک ہر کسی کو رسائی حاصل نہیں ہے۔

یہ تحریر وائس آف امریکہ کے لیے ڈورا میکوار کی رپورٹ سے ماخوذ ہے۔

XS
SM
MD
LG