رسائی کے لنکس

اقتدار پر قبضے کے لیے نہیں آئے: تھائی جنرل


جنرل پرایوتھ
جنرل پرایوتھ

فوج کے سربراہ پرایوتھ چان اوچا کا کہنا تھا کہ سلامتی کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور شہریوں کے خلاف بھاری ہتھیار استعمال کے خدشے کے پیش نظر مارشل لاء نافذ کرنا ناگزیر ہو گیا تھا۔

تھائی لینڈ میں فوج کے سربراہ نے ملک میں کئی ماہ سے جاری سیاسی بدامنی کی وجہ سے ملک میں مارشل لاء نافذ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد اقتدار حاصل کرنا نہیں۔

رات دیر گئے مارشل لاء کے نفاذ کے بعد منگل کی صبح دارالحکومت بنکاک میں فوج نے سیاسی ریلیوں کے مقامات، ٹی وی اسٹیشنز اور شہر کے اہم شاہراہوں پر پوزیشنیں سنبھال لیں۔

سرکاری ٹی وی پر رات تین بجے کے بعد ہی سے ملی نغمے نشر کیے جا رہے ہیں۔ ٹی وی پر نشر ہونے والے ایک بیان میں فوج کے سربراہ پرایوتھ چان اوچا کا کہنا تھا کہ سلامتی کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور شہریوں کے خلاف بھاری ہتھیار استعمال کے خدشے کے پیش نظر مارشل لاء نافذ کرنا ناگزیر ہو گیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ اس صورتحال میں فسادات پھوٹنے اور بدامنی بڑھنے کے خدشات نے قومی سلامتی کے لیے بھی خطرہ پیدا کر دیا تھا۔

جنرل پرایوتھ کا کہنا تھا کہ تھائی لینڈ کی شاہی فوج ملک میں امن و امان کو جلد از جلد بحال کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ انھوں نے عوام سے پریشان نہ ہونے اور اپنے معمولات جاری رکھنے کا کہا ہے۔

فوج کا کہنا ہے کہ ملک کی عبوری حکومت بدستور اپنی جگہ برقرار ہے۔ توقع ہے کہ منگل کو سول حکومت کے نمائندے فوجی رہنماؤں سے ملاقات کریں گے۔

تھائی لینڈ میں گزشتہ سال کے اواخر ہی سے حزب مخالف وزیراعظم ینگ لک شیناواترا کے خلاف بدعنوانی کے الزامات عائد کرتے ہوئے سراپا احتجاج رہی۔ دسمبر میں وزیراعظم نے پارلیمان کو تحلیل کرتے ہوئے ملک میں انتخابات کا اعلان کیا۔

لیکن اپوزیشن کا اصرار تھا کہ وزیراعظم مستعفی ہو کر اقتدار ایک غیر منتخب شدہ کونسل کے حوالے کریں جو کہ سیاسی اصلاحات کے بعد انتخابات کروائے۔

رواں ماہ ہی تھائی لینڈ کی ایک عدالت نے اختیارات کا غلط استعمال کرنے کے الزام میں ینگ لک کو وزارت عظمیٰ کا منصب چھوڑنے کا حکم دیا تھا۔

حالیہ دنوں میں جنرل پرایوتھ کی طرف سے یہ انتباہ بھی سامنے آچکا تھا کہ فوج سنگین اقدامات کرنے کے لیے تیار ہے۔ ان کا یہ بیان اپوزیشن کے ایک احتجاجی کیمپ پر ہونے والے حملے کے بعد سامنے آیا تھا جس میں تین افراد ہلاک اور 20 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔

ملک میں جاری سیاسی بدامنی اور مظاہروں کے دوران کم ازکم 30 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں اکثریت حکومت مخالف مظاہرین کی تھی۔
XS
SM
MD
LG