انگلینڈ کے تیز بالر اسٹیورٹ براڈ نے منگل کو تیسرے ٹیسٹ میچ کے پانچویں روز جب ویسٹ انڈیز کے افتتاحی بلے باز کریگ بریتھویٹ کو ایل بی ڈبلیو کیا تو وہ ٹیسٹ کرکٹ میں 500 وکٹوں کا سنگ میل عبور کرنے والے دنیا کے ساتویں بالر بن گئے۔
اسٹیورٹ براڈ نے میچ میں مجموعی طور پر 10 وکٹیں حاصل کر کے ٹیم کی فتح میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
ٹیسٹ کرکٹ میں سب سے زیادہ 800 وکٹیں حاصل کرنے کا ریکارڈ سری لنکا کے آف اسپنر مرلی دھرن کے پاس ہے، شین وارن 708 وکٹوں کے ساتھ دوسرے، بھارت کے انیل کمبلے 619 وکٹیں حاصل کر کے تیسرے، انگلش پیسر جیمز اینڈرسن 589 وکٹیں حاصل کر کے چوتھے، آسٹریلوی بالر گلین میک گراتھ 563 وکٹوں کے ساتھ پانچویں، ویسٹ انڈیز کے کورٹنی والش 519 وکٹوں کے ساتھ چھٹے نمبر پر ہیں۔
لیکن جیمز اینڈرسن اور اسٹیورٹ براڈ کے علاوہ تمام کھلاڑی ریٹائر ہو چکے ہیں۔
پاکستان کا کوئی کھلاڑی بھی ٹیسٹ کرکٹ میں اب تک 500 وکٹیں حاصل کرنے کا سنگ میل عبور نہیں کر سکا ہے۔
کرکٹ ماہرین کے مطابق پاکستان کرکٹ کے انتظامی ڈھانچے میں خرابی، کھیل میں سیاست کا عمل دخل اور بعض کھلاڑیوں کی میدان سے باہر سرگرمیوں کے باعث پاکستان کا کوئی بھی کھلاڑی ٹیسٹ کرکٹ میں 500 وکٹیں حاصل کرنے میں ناکام رہا۔
پاکستان کی جانب سے سابق کپتان وسیم اکرم ایک روزہ کرکٹ میں 502 وکٹیں حاصل کر چکے ہیں، لیکن ٹیسٹ میچز میں وہ 414 وکٹیں ہی حاصل کر سکے۔
کرکٹ تجزیہ کار عبدالماجد بھٹی کہتے ہیں کہ پاکستان میں اگر کوئی بالر 500 وکٹیں حاصل کر سکتا تھا تو وہ وسیم اکرم تھے۔ لیکن میچ فکسنگ تنازع اور دیگر معاملات کے باعث وہ یہ سنگ میل عبور نہ کر سکے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ جیمز اینڈرسن اور اسٹیورٹ براڈ 16، 16 سال سے انگلش ٹیم کا حصہ ہیں۔ اُنہوں نے اپنی فٹنس برقرار رکھی ہے اور خود کو صرف ٹیسٹ کرکٹ تک محدود رکھا ہے۔ اس کے علاوہ انگلش کرکٹ بورڈ نے بھی ان کھلاڑیوں کا خاص خیال رکھا ہے۔
عبدالماجد بھٹی کے بقول پاکستان میں صورتِ حال اس سے مختلف رہی ہے۔ شعیب اختر نے جتنا عرصہ بھی پاکستان کے لیے کرکٹ کھیلی وہ انجریز کا شکار رہے اور 200 وکٹیں بھی حاصل نہ کر سکے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ٹیسٹ کرکٹ میں ایک بالر کو ہر روز 20، 20 یا اس سے بھی زیادہ اوورز کرنا پڑتے ہیں اور یہ صرف اسی صورت ممکن ہے، جب ایک بالر مکمل فٹ ہو۔
لیکن عبدالماجد بھٹی کہتے ہیں کہ آج کل کرکٹ بہت زیادہ ہو گئی ہے۔ کھلاڑی بین الاقوامی کرکٹ کے علاوہ دنیا بھر میں مختلف لیگز بھی کھیلتے ہیں۔ لہذٰا اُن کا جسم اتنی اجازت نہیں دیتا کہ وہ لمبے عرصے تک ملک کی نمائندگی کر سکیں۔
کرکٹ کی معروف ویب سائٹ 'کرک انفو' کے پاکستان میں نمائندے عمر فاروق بھی اتفاق کرتے ہیں کہ پاکستان میں فٹنس کا وہ معیار نہیں جو انگلینڈ، آسٹریلیا یا دیگر ملکوں میں ہے۔
اُن کے بقول یہ کرکٹ بورڈ اور ٹیم انتظامیہ کا کام ہوتا ہے کہ وہ کھلاڑیوں کو تیار کرتی ہے اور انہیں اہداف دیے جاتے ہیں۔
عمر فاروق کہتے ہیں کہ سالہا سال سے جیمز اینڈرسن اور اسٹیورٹ براڈ کا یہ ہدف تھا کہ وہ انگلینڈ کے لیے 500 وکٹیں حاصل کریں گے۔ بورڈ نے بھی اُنہیں اعتماد دیا اور اُنہیں ٹیم سے ڈراپ ہونے کا بھی خوف نہیں تھا۔
لیکن اُن کے بقول پاکستان میں صورتِ حال اس کے برعکس ہے اگر کھلاڑی ایک سیریز میں پرفارم نہیں کرتا تو اسے ڈراپ کر دیا جاتا ہے۔ یوں وہ ڈراپ ہونے کے خوف میں ہی مبتلا رہتا ہے۔
پاکستان کے فاسٹ بالرز محمد عامر اور جنید خان کی مثال دیتے ہوئے عمر فاروق نے کہا کہ دونوں کھلاڑیوں نے بہت جلد 50 وکٹیں حاصل کر لیں۔ محمد عامر کے پانچ سال اسپاٹ فکسنگ تنازع کی نذر ہو گئے جب کہ جنید خان کو لمبے عرصے تک موقع نہیں دیا گیا۔
کیا پاکستان ٹیم میں موجود بالر 500 وکٹیں حاصل کر سکتے ہیں؟
عبدالماجد بھٹی کے بقول اب بھی پاکستان کی جانب سے 500 وکٹوں کا حصول ناممکن نہیں ہے۔ اُن کے بقول اگر موجودہ بالرز کو بہتر طریقے سے استعمال کیا جائے تو بعض بالر 500 وکٹیں حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ موجودہ ٹیم میں شاہین شاہ آفریدی اور نسیم شاہ میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ پاکستان کے لیے یہ اعزاز حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ ٹیم انتظامیہ اُن کی فٹنس کو ذہن میں رکھتے ہوئے اُنہیں استعمال کرے۔
اُن کے بقول اب یہ شاہین اور نسیم شاہ پر منحصر ہے کہ وہ اپنی کرکٹ کو کس طرح آگے بڑھاتے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ یاسر شاہ تاخیر سے ٹیم کا حصہ بنے جب کہ گزشتہ چند سالوں سے وہ صرف ایشیائی کنڈیشنز میں ہی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر پا رہے ہیں۔ آسٹریلیا کے ٹور میں بھی اُن کی کارکردگی خاطر خواہ نہیں تھی۔
خیال رہے کہ پاکستان کی جانب سے وسیم اکرم 104 ٹیسٹ میچز میں 414 ٹیسٹ وکٹ حاصل کر کے سرفہرست ہیں۔ وقار یونس کی 87 ٹیسٹ میچز میں 373، عمران خان کی 88 ٹیسٹ میچز میں 362، لیگ اسپنر دانش کنیریا کی 61 ٹیسٹ میچز میں 261، عبدالقادر کی 67 ٹیسٹ میچز میں 236 وکٹیں حاصل ہیں۔
پاکستان کی ٹیسٹ ٹیم میں شامل لیگ اسپنر یاسر شاہ کی 39 ٹیسٹ میچز میں 213 وکٹیں حاصل ہیں۔
عمر فاروق کے بقول پاکستان کی کرکٹ تاریخ میں بالرز کے مابین ہمیشہ سخت مقابلہ رہا ہے۔ لہذٰا بہت کم بالرز کو لمبے عرصے تک ٹیم کی نمائندگی کرنے کا موقع نہیں ملا۔
عمر فاروق کہتے ہیں کہ وسیم اکرم اور وقار یونس اس لیے لمبے عرصے تک پاکستان کے لیے کھیلے کیوں کہ وہ اپنے دور کے بہترین بالرز تھے۔
اُن کا کہنا ہے کہ بھارت کے بعد پاکستان کی 'کرکٹنگ پاپولیشن' یعنی مختلف طرز کی کرکٹ کھیلنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے، لہذٰا مقابلے کی فضا رہتی ہے۔
عمر فاروق کہتے ہیں کہ پاکستان میں کرکٹ بورڈ بھی حکومت کے زیرِ اثر ہوتا ہے، لہذٰا جب حکومت تبدیل ہوتی ہے تو پھر پسند نا پسند کی بنیاد پر فیصلے ہوتے ہیں اور لامحالہ کھلاڑیوں کے انتخاب کے معاملے پر بھی اس کا اثر ہوتا ہے۔
'بالرز کو خوراک پر توجہ دینا ہو گی'
کرکٹ ماہرین کے مطابق پاکستان میں خوارک کے حوالے سے کچھ زیادہ احتیاط نہیں برتی جاتی۔
اُن کے بقول یہاں کڑاہیاں، نہاری، حلیم، سری پائے اور اس طرح کی خوارک عام ہے جب کہ شاہین شاہ آفریدی اور نسیم شاہ خیبرپختونخوا سے تعلق رکھتے ہیں، وہاں تو مرغن غذا زیادہ کھائی جاتی ہے۔
عبدالماجد بھٹی کا کہنا ہے کہ حال ہی میں کرکٹ بورڈ نے کوشش کی ہے کہ کھلاڑیوں کی خوارک کے حوالے سے احتیاط برتے۔
نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں لگنے والے ایک کیمپ کا تذکرہ کرتے ہوئے عبدالماجد بھٹی نے بتایا کہ دوران کیمپ تو کھلاڑیوں کو سادہ غذا دی گئی۔ لیکن جونہی کیمپ ختم ہوا تو کھلاڑی ٹولیوں کی صورت میں قریب ہی واقع ایک فاسٹ فوڈ ریستوران چلے گئے اور اُنہوں نے اپنی مرضی کا کھانا نوش کیا۔
پاکستان کو کم ٹیسٹ میچز ملنا بھی ایک وجہ؟
عبدالماجد بھٹی کہتے ہیں کہ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ پاکستان کو انگلینڈ، آسٹریلیا اور بھارت کے مقابلے میں کم ٹیسٹ میچز ملے ہیں۔
اُن کے بقول اگر رواں انگلش سیزن کی بات کریں تو انگلینڈ نے ویسٹ انڈیز کے بعد پاکستان کے خلاف تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز کھیلنا ہے جب کہ پاکستان تین ٹیسٹ میچز ہی کھیلے گا۔
اُن کا کہنا ہے کہ پاکستان ٹیم میں شامل ہر کھلاڑی ہر فارمیٹ کھیلنا چاہتا ہے۔ اُن کے بقول جب ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کو فروغ ملا تو کھلاڑیوں کی زیادہ توجہ اس جانب ہو گئی۔
محمد عامر کی مثال دیتے ہوئے عبدالماجد بھٹی کہتے ہیں کہ اُنہوں نے صرف 27 سال کی عمر میں ٹیسٹ کرکٹ کو خیر آباد کہہ دیا۔ لہذٰا یہ وہ عوامل ہیں جس بنا پر اب تک کوئی بھی پاکستانی بالر 500 وکٹیں حاصل نہیں کر سکا۔