پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ ہے اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس جنگ میں پاکستان نے ہی سب سے زیادہ نقصان اٹھایا ہے ۔ سال دوہزار دس میں پیش آنے والے واقعات اس بات کا واضح ثبوت ہیں۔ اگرچہ اس سال ملک کے مختلف علاقوں میں متعدد دہشت گردی کے واقعات رونما ہوئے اور بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا تاہم سب سے زیادہ واقعات قبائلی علاقوں میں پیش آئے ۔
پاکستان کے مطبوعہ ذرائع ابلاغ کی مدد سے جمع کئے گئے اعدادو شمار کی مدد سے ساوٴتھ ایشیاء ٹیررازم پورٹل نامی ویب سائٹ نے جو رپورٹ جاری کی ہے اس کے مطابق فاٹا یعنی قبائلی علاقوں میں مجموعی طور پر سال دوہزار دس میں بارہ دسمبر تک دہشت گردی کے 672 واقعات ہوئے۔ ان میں پانچ ہزار تئیس افراد ہلاک ہوئے جن میں چارہزار دو سو چھیانوے عسکریت پسند، چار سو نوے عام شہری اور دو سو سینتیس سیکورٹی اہلکار شامل ہیں۔
اس سے پہلے آنے والے سال یعنی 2009 میں مجموعی طور پر دہشت گردی کے 835واقعات پیش آئے تھے جن میں 5,238 افراد ہلاک ہوئے ۔ اس تعداد میں چار ہزار دو سو باون عسکریت پسند، چھ سو چھتیس شہری اور تین سو پچاس سیکورٹی اہلکار شامل ہیں۔
ان دونوں سالوں کے اعدادو شمار کے تجزیئے سے ظاہر ہورہا ہے کہ دوہزار نو کے مقابلے میں سال دوہزار دس میں جاں بحق ہونے والے عام شہریوں اور سیکورٹی فورسز کی تعداد میں بتیس اعشاریہ تین فی صد کمی جبکہ ہلاک ہونے والے عسکریت پسندوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
فاٹا میں رواں سال بارہ خود کش حملے ہوئے جن میں دو سو چھیاسٹھ اموات ہوئیں جبکہ 361 افراد زخمی ہوئے۔ دوسری جانب دوہزار نو میں چھ خود کش حملے ہوئے تھے جن میں ایک سو سولہ افراد ہلاک جبکہ 169 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔
رواں سال فاٹا کے قبائلی علاقوں میں 12 دسمبر تک عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر مجموعی طور پر 82 ڈرونز حملے ہوئے جن میں 716 اموات ہوئیں جبکہ گزشتہ سال یعنی دوہزار نو میں کل 46 حملے ہوئے تھے جن میں پانچ سو چھتیس افراد ہلاک ہوئے۔ اس طرح اس سال ڈرون حملوں میں مرنے والے عسکریت پسندوں کی شرح 34 فیصد رہی۔
پاکستان میں ڈورن حملوں کا آغاز دوہزار چار میں ہوا تھا ۔ اب تک ان حملوں میں القاعدہ کے 15اورتحریک طالبان پاکستان کے 9سرکردہ رہنما مارے جاچکے ہیں۔ ان میں بیت اللہ محسود، اسامہ الکنی عرف فاہد محمد علی مسلام، مصطفی ابو یازیدعرف سعید المصری، محمد حقانی ، عبدالباسط عثمان، ابوجہاد المصری شامل ہیں۔
سال دوہزار دس اور دوہزار نو کے دوران قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف بڑے پیمانے پر "راہ نجات" اور" خواک بادیشم" کے نام سے عسکری آپریشن بھی ہوچکے ہیں۔ ان آپریشنز کے نتیجے میں ان علاقوں کا کنٹرول دہشت گردوں سے دوبارہ حاصل کیا گیا۔
یکم جون 2010ء کو وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے عسکریت پسندی سے متاثرہ فاٹا اور خیبر پختونخواہ کے رہائشیوں کے لئے امدادی پیکیج کا اعلان کیا جس میں ٹیکسوں میں رعایت، ڈیوٹیز میں کمی اور یوٹیلیٹی بلز میں ریلیف شامل تھا۔ پیکیج کے تحت بری طرح متاثرہ علاقوں کو ودہولڈنگ ٹیکس سے بھی مستثنیٰ قراردیا گیا۔