رسائی کے لنکس

دہشت گردوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی ایک بہت بڑا چیلنج ہے: تجزیہ کار


دہشت گردوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی ایک بہت بڑا چیلنج ہے: تجزیہ کار
دہشت گردوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی ایک بہت بڑا چیلنج ہے: تجزیہ کار

بین الاقوامی قانون کے ماہر احمد بلال صوفی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے سلسلے میں کئی مسائل درپیش ہیں جنھیں حل کرنا اولین ترجیح ہونی چاہیئے۔

’پاکستان میں انسدادِ دہشت گردی کے قانون میں صقم اور قانون سازی کی ضرورت ‘کے عنوان پر اتوار کو’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو میں اُنھوں نے کہا کہ قانونی چارہ کا معاملہ ’حکومتی اور مقامی دونوں سطحوں پر ایک بہت بڑا چیلنج بن چکا ہے۔‘

اِس سلسلے میں اُنھوں نے قانونی اور انتظامی پہلوؤں کی نشاندہی کی اور کہا کہ پہلے مرحلے میں چالان دائر کرنے ،عدالت تک پہنچنے اور انصاف کا حصول کے راہ میں کئی رکاوٹیں اور مشکلات درپیش ہیں۔ اُنھوں نے بتایا کہ عینی شاہدین، انتظامی مشینری، وکلا اور عدالتوں کو درکار سکیورٹی کی عدم دستیابی ’تشویش اور گریز کے رویے‘ کو جنم دے رہی ہے۔

احمر بلال صوفی نے کہا کہ وکلا، عدالتوں اور وزارتِ داخلہ کو مل کر بہتری لانے کے لیے ایک مربوط کوشش کرنی ہوگی۔

اِس سوال پر کہ دہشت گردی میں ملوث ملزمان کو سزا دلوانے کے لیے قانونی اور انتظامی مسائل کو کس طرح حل کیا جا سکتا ہے،

اُنھوں نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ قانون سازی کو’ اپ گریڈ‘ کیا جائے، تفتیشی عہدے داروں کی تعداد کو بڑھایا جائے اور ساتھ ہی اُن کی تربیت اور تفتیش پر زور دیا جائے۔ اُن کے الفاظ میں، اچھے ثبوت کے ساتھ کی گئی چھان بین پر مشتمل چالان پیش ہونے کی صورت میں ہی بہتر نتائج برآمد ہونے کی توقع ہوگی۔

اُن کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف کوششیں پاکستان کی اپنی جنگ ہے۔ اُن کے بقول، دہشت گرد درحقیقت پاکستان کی ریاست پر حملہ کررہا ہے، جب کہ دہشت گردی اِسی بات کا ایک اظہار ہے، اور اِس بات پر زور دیا کہ پاکستان کے تمام اداروں، سیاسی لیڈرشپ اور عدالتوں کو اکٹھا مؤقف اختیار کرنا چاہیئے۔ ‘

انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کے اسلام آباد کے چیرمین، ڈاکٹر شاہد امین خان نے اتفاقِ رائے اختیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔اُن کے بقول، پاکستان کو ایک خطرناک صورتِ حال درپیش ہے جس کا تدارک نہ ہونے کی صورت میں حالات مزید پیچیدہ ہو ں گے۔

شاہد امین نے کہا کہ دہشت گرد، شہریوں کو یرغمال بنا رہے ہیں، جب کہ انسانی حقوق کے ادارے زیادہ تر دباؤ میں کام کررہے ہیں، جن کو زندگی سے ہاتھ دھونے کی دھمکیاں ملنا عام سی بات ہے، ایسے میں انصاف کی توقع کم ہی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ جب تک انسانی حقوق کے ادارے اپنی جڑیں مضبوط نہیں کرلیتے، انصاف کے حصول کی راہ میں رکاوٹوں سے پردہ نہیں اُٹھ پائے گا اور حالات میں بہتری آنا مشکل ہوگی۔

XS
SM
MD
LG