پاکستان اور بھارت کے اعلیٰ عہدیداروں کا ایک دوسرے پر دہشت گردی کو ہوا دینے کے الزامات اور لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے تبادلے کے واقعات سے اسلام آباد اور نئی دہلی کے تعلقات میں تناؤ بڑھتا جا رہا ہے۔
گزشتہ برس اگست میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے اقدام سے اسلام آباد اور نئی دہلی کے تعلقات نہ صرف کشیدہ ہوئے بلکہ اس کے بعد سے معمول کے سفارتی رابطے بھی معطل ہیں۔
دوسری طرف متنازع علاقے کشمیر کو تقسیم کرنے والی سرحد لائن آف کنٹرول پر حالیہ مہینوں میں فائرنگ کے تبادلے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، جو دونوں جانب جان و مال کے نقصان کا باعث بن رہے ہیں۔
دو ہفتے قبل پاکستان نے دعویٰ کیا تھا کہ کہ بھارت پاکستان میں عسکری کارروائیوں کے لیے مبینہ طور پر بعض شدت پسند تنظیموں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔
بھارت ان الزامات کو رد کرتے ہوئے کہہ چکا ہے کہ پاکستان سرحد پار دہشت گردی کی مبینہ کارروائیوں اور ایل او سی پر فائر بندی معاہدے کی خلاف ورزیوں سے توجہ ہٹانے کے لیے ایسے الزامات عائد کر رہا ہے۔
بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار حسن عسکری کا کہنا ہے کہ نئی دہلی اور اسلام آباد میں کشیدگی کی سطح کم یا زیادہ ہوتی رہتی ہے۔ اس وقت اس کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ان کے بقول وزیرِ اعظم نریندر مودی کی پاکستان کے حوالے سے پالیسی بھی اس ساری صورتِ حال کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اسی لیے بظاہر ایسا نہیں لگتا جس سے توقع کی جائے کہ دونوں ممالک میں جاری تناؤ کم ہو گا اور حالات بہتر ہوں گے۔
حسن عسکری کا مزید کہنا تھا کہ اس صورتِ حال کے پیشِ نظر اندیشہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات مزید بگڑ سکتے ہیں۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ باہمی تعلقات کی خرابی اور لائن آف کنٹرول پر ہونے والے واقعات کے باوجود دونوں فریق صبر و تحمل سے کام لیں گے تاکہ معاملات وہ رخ اختیار نہ کریں جس سے صورتِ حال خطرناک ہو جائے۔
حسن عسکری کے خیال میں لائن آف کنٹرول پر صورت حال خراب رہنا پاکستان کے حق میں نہیں ہے۔ ان کے بقول بھارتی حکومت کی یہ پالیسی رہی ہے کہ کھلی جنگ سے بچتے ہوئے پاکستان کو دباؤ میں رکھا جائے اور لائن آف کنٹرول کے ذریعے یہ پالیسی جاری رکھی جاتی ہے۔
واضح رہے کہ لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے واقعات سے دونوں جانب جانی اور مالی نقصان ہوتا ہے۔ دونوں ممالک ایک دوسرے پر ایل او سی پر فائر بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتے ہیں۔
دوسری جانب 'یونیورسٹی آف کشمیر' کے شعبہٴ سیاسیات کے سابق پروفیسر ڈاکٹر نور احمد بابا کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت میں لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے تبادلے کے واقعات اور کشیدگی کی وجہ سے پورا خطہ متاثر ہو رہا ہے۔ جب کہ کشمیر کے عوام بھی اس سے براہِ راست متاثر ہو رہے ہیں۔
ان کے بقول دونوں ممالک میں سفارتی کشیدگی کی وجہ سے صورتِ حال نہایت نازک ہے۔ گزشتہ سال پانچ اگست کو کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے اقدام سے دونوں ممالک میں حالات کشیدہ تر ہوتے جا رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس خطے میں چین بھارت کی لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر تنازع سے بیجنگ اور نئی دہلی میں بھی تناؤ کی صورتِ حال ہے۔ دوسری طرف پاکستان اور چین کے قریبی اسٹرٹیجک تعلقات ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر نور احمد بابا نے کہا کہ نئی دہلی یہ الزام عائد کرتا رہا ہے کہ پاکستان بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں دہشت گردی کی حمایت کرتا ہے۔ لیکن حال ہی میں پاکستان نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ بھارت پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ پاکستان ایک ڈوزئیر بھی سامنا لایا ہے۔ تاہم دونوں ممالک ایسے الزامات مسترد کرتے رہے ہیں۔
ان کے خیال میں دونوں ممالک کے تعلقات مزید کشیدہ ہونے کا اندیشہ ہے۔ اور اس بگاڑ کا براہِ راست اثر کشمیر پر ہوتا ہے۔ جب پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات بہتر ہوتے ہیں اس سے کشمیریوں کے لیے بھی حالات قدرے سکون کا باعث بنتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت دونوں ملکوں کے درمیان صورتِ حال خطرناک ہے۔ جب ایک طرف بھارت کا پاکستان کے ساتھ ایک تنازع موجود ہے۔ تو دوسری طرف چین کے ساتھ بھی سرحدی تنازعے میں شدت آ گئی ہے۔
ان کے بقول ان حالات کی وجہ سے حالات مزید خراب ہونے کا خدشہ موجود ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کے نئی دہلی پر دہشت گردی کی پشت پناہی کے الزامات اور بھارتی حکومت کی ملک کے اندرونی حالات سے توجہ ہٹانے کے لیے محدود جنگ ہو سکتی ہے جس سے سب سے زیادہ متاثرہ فریق کشمیر ہو گا۔
اس حوالے سے بھارت کی فوج کے سابق جنرل دیپانکر بینر جی کا کہنا ہے کہ لداخ میں چین اور بھارت میں کشیدگی سے بھی نئی دہلی اور اسلام آباد کے تعلقات پر منفی اثر پڑا ہے۔
ان کے بقول نئی دہلی نے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں دہشت گردی کا ایک مبینہ منصوبہ ناکام بناتے ہوئے اس کا الزم پاکستان پر عائد کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی پلوامہ جیسا واقعہ ہوتا ہے تو پاکستان اور بھارت کے درمیان حالات مزید کشیدہ ہو جائیں گے۔
ان کے خیال میں بھارت اور چین کے درمیان لداخ کے معاملے پر تناؤ کی صورتِ حال ہے لیکن اس وقت وہاں بات چیت کا سلسلہ بھی جاری ہے اور دونوں ممالک کے مقامی کمانڈرز رابطے میں ہیں جس سے رواں موسم سرما میں سرحدی کشیدگی کا معاملے کے سلجھنے کا امکان ہے۔
بھارت کی فوج کے سابق جنرل بینر جی کے بقول بھارت اور پاکستان کے درمیان بات چیت کا سلسلہ بحال ہونا چاہیے۔ کیوں کہ دنوں ممالک کے معاملات بات چیت ہی سے سلجھ سکتے ہیں۔ کیوں کہ جنگ کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے۔
تجزیہ کار حسن عسکری کہتے ہیں کہ بھارت کی یہ پالیسی رہی ہے کہ لائن آف کنٹرول پر محدود سطح پر فوجی کارروائی جاری رکھی جائے۔ تا کہ یہ کہا جا سکے کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی تحریک مقامی نہیں ہے۔ بلکہ اس کی وجہ پاکستان سے مبینہ طور پر بھیجنے جانے والے عسکریت پسند ہیں۔ یہ مؤقف خاصا پرانا ہے اور اب یہ درست نظر نہیں آتا۔