رسائی کے لنکس

سلمان تاثیر کی زندگی پر ایک نظر


سلمان تاثیر کی زندگی پر ایک نظر
سلمان تاثیر کی زندگی پر ایک نظر

1988ء کے انتخابات میں وہ پی پی پی کے ٹکٹ پر لاہور سے پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور 1990ء میں اسمبلی کی تحلیل تک ڈپٹی اپوزیشن لیڈر اور بعد ازاں قائدِ حزبِ اختلاف کے طور پر خدمات سر انجام دیں۔ 1990ء، 1993ء اور 1997ء کے عام انتخابات میں انہوں نے لاہور سے قومی اسمبلی کی نشست کے لیے قسمت آزمائی کی تاہم وہ کامیاب نہ ہوسکے۔ جس کے بعد انھوں نے عملی سیاست کو خیرباد کہہ دیا اور اپنی تمام تر توجہ اپنے کاروبار کو مستحکم کرنے پر مرکوز کردی۔

سلمان تاثیر کی زندگی پر ایک نظر
سلمان تاثیر کی زندگی پر ایک نظر

گورنر پنجاب سلمان تاثیر منگل کی شام اسلام آباد کی کوہسار مارکیٹ میں کی گئی فائرنگ کے دوران ہلاک ہوگئے۔

سلمان تاثیر کو 15 مئی 2008ء کو اُس وقت کے صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف نے لیفٹننٹ جنرل (ر) خالد مقبول کی جگہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا گورنر مقرر کیا تھا۔ ان کی تعیناتی کی سفارش فروری 2008ء کے انتخابات کے بعد برسرِ اقتدار آنے والی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے کی تھی۔

سلمان تاثیر1946 میں پیدا ہوئے اور ان کا تعلق لاہور کے ایک دانشور گھرانے سے تھا اور ان کے والد محمد دین تاثیر (ایم ڈی تاثیر) کیمبرج یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں پی ایچ ڈی ڈگری حاصل کرنے والے برِ صغیر پاک و ہند کے پہلے شخص تھے۔

سلمان تاثیر پیپلز پارٹی کی سابق چیئرپرسن بینظیر بھٹو کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ معروف شاعر فیض احمد فیض کے قریبی رشتہ دار اور انکے حلقہ معتقدین میں شامل تھے۔

انھوں نے سینٹ انتھونی اسکول لاہور سے ابتدائی تعلیم حاصل کی جہاں وہ مسلم لیگ (نواز) کے سربراہ اور سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے ہم جماعت تھے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد سلمان تاثیر برطانیہ چلے گئے جہاں انھوں نے لندن کی ایک یونیورسٹی سے چارٹرڈ اکاؤٹنسی کی تعلیم حاصل کی۔

سلمان تاثیر بنیادی طور پر ایک بزنس مین تھے تاہم وہ سیاست میں بھی خاصے سرگرم رہے۔ انھوں نے اپنی سیاست کا باقاعدہ آغاز 1970ء کی دہائی میں پاکستان پیپلز پارٹی کی طلبہ تنظیم "پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن" سے کیا۔

سلمان تاثیر نے پیپلز پارٹی کے بانی اور سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی گرفتاری اور ایک عدالت کی جانب سے انھیں سنائی گئی موت سزا کے خلاف چلائی گئی تحریک میں بھی سرگرم کردار ادا کیا۔

انھوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی ایک سوانح بھی مرتب کی جو 1980ء میں ”بھٹو: اے پولیٹیکل بایوگرافی“ کے عنوان سے شائع ہوئی۔ سلمان تاثیر نے 1985ء میں اس وقت کے فوجی صدر جنرل ضیاء الحق کے خلاف چلائی جانے والی بحالی جمہوریت کی تحریک (ایم آر ڈی) میں بھی سرگرم کردار ادا کیا۔

اپنے سیاسی کیریئر کے دوران سلمان تاثیر 16 بار گرفتار اور کئی بار نظر بند ہوئے اور فیصل آباد، لاہور اور جھنگ کی جیلوں میں سیاسی قیدی رہے۔

1988ء کے انتخابات میں وہ پی پی پی کے ٹکٹ پر لاہور سے پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور 1990ء میں اسمبلی کی تحلیل تک ڈپٹی اپوزیشن لیڈر اور بعد ازاں قائدِ حزبِ اختلاف کے طور پر خدمات سر انجام دیں۔ 1990ء، 1993ء اور 1997ء کے عام انتخابات میں انہوں نے لاہور سے قومی اسمبلی کی نشست کے لیے قسمت آزمائی کی تاہم وہ کامیاب نہ ہوسکے۔ جس کے بعد انھوں نے عملی سیاست کو خیرباد کہہ دیا اور اپنی تمام تر توجہ اپنے کاروبار کو مستحکم کرنے پر مرکوز کردی۔

سلمان تاثیر نے 1995ء میں ”ورلڈ کال“ کی بنیاد رکھی جو اس وقت پاکستان میں ٹیلی کام کے نجی شعبے کی ایک اہم کمپنی ہے۔ وہ ”ورلڈ کال گروپ“ اور ”فرسٹ کیپیٹل“ کے چیئرمین اور سی ای او کی حیثیت سے بھی خدمات سر انجام دے رہے تھے۔

اس کے علاوہ ان کے بزنس گروپ کی ملکیت میں ”بزنس پلس“ نامی ایک نیوز ٹی وی چینل، ”وِک کڈ پلس“ نامی بچوں کا ٹی وی چینل، ”ڈیلی ٹائمز“ نامی انگریزی اخبار اور ”روزنامہ آج کل“ نامی اردو اخبار بھی ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے چارٹرڈ اکاؤنٹنسی اور مینجمنٹ کنسلٹینسی فراہم کرنے والی کئی کمپنیوں کی بھی بنیاد رکھی۔

پنجاب کے گورنر کے عہدے پر تعیناتی سے قبل سلمان تاثیر نے 2008ء کے انتخابات سے پہلے قائم کی جانے والی محمد میاں سومرو کی نگران حکومت میں چار ماہ تک صنعتوں، پیداوار اور خصوصی اقدامات کے وفاقی وزیر کی حیثیت سے خدمات انجام دی تھیں۔ پرویز مشرف کی نگران کابینہ کا حصہ رہنے پر پنجاب کی حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (نواز)نے سلمان تاثیر کی بحیثیت گورنر پنجاب تعیناتی پر خاصی برہمی کا اظہار کیا تھا۔

گورنر پنجاب کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے لے کر اسلام آباد میں ان کے قتل تک ان کے اور پنجاب حکومت کے درمیان تعلقات مسلسل کشیدہ رہے۔ سلمان تاثیر لگ بھگ ڈھائی سال گورنر پنجاب کے عہدے پر تعینات رہے اور اس پورے عرصے کے دوران پنجاب حکومت کے ساتھ ان کی ورکنگ ریلیشن شپ قائم نہ ہوسکی۔

مسلم لیگ نواز کی جانب سے کئی بار سلمان تاثیر کو گورنر کے عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ بھی کیا گیا تاہم انھیں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور صدرِ مملکت آصف علی زرداری کا مکمل اعتماد حاصل رہا۔ گورنر کے غیر سیاسی عہدے پر فائز ہونے کے باوجود سلمان تاثیر کو پنجاب میں پیپلز پارٹی کا نمائندہ سمجھا جاتا تھا۔

گورنر شپ کے ڈھائی برسوں کے دوران سلمان تاثیر مختلف تنازعات کے باعث مسلسل ذرائع ابلاغ میں ”اِن“ رہے۔ پنجاب حکومت سے ان کی مسلسل نوک جھونک، 2009ء کے اوائل میں پنجاب میں گورنر راج لگانے اور پیپلز پارٹی کی حکومت قائم کرنے کے حوالے سے ان کی ناکام کوششوں، اور غیر محتاط اور خلافِ منصب سیاسی بیان بازی کے باعث انھیں کئی حلقوں کی جانب سے مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔

دو ماہ قبل گورنر پنجاب نے صوبہ کی ایک مقامی عدالت سے توہینِ رسالت کے الزام میں سزائے موت پانے والی ایک عیسائی خاتون آسیہ بی بی کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے ناموسِ رسالت کے قانون کو ”کالا قانون“ قرار دیا تھا جو بظاہر ان کی موت کی وجہ بنا۔ ان کے قاتل نے ابتدائی تحقیقات کے دوران پولیس کو بتایا ہے کہ اس نے سلمان تاثیر کو اس لیے گولی ماری کیونکہ اس کے بقول وہ توہینِ رسالت کے مرتکب ہوئے تھے۔

سلمان تاثیر نے لواحقین میں اپنی اہلیہ آمنہ تاثیر اور دو بیٹوں اور چار بیٹیوں کو سوگوار چھوڑا ہے۔

XS
SM
MD
LG