رسائی کے لنکس

افغان طالبان نے پاکستان سے 10 ارب روپے مانگنے کا دعویٰ مسترد کر دیا


  • پاکستان کے وزیرِ دفاع کا دعویٰ مسترد کرتے ہیں: طالبان نائب ترجمان
  • خواجہ آصف نے دعویٰ کیا تھا کہ افغان طالبان نے ٹی ٹی پی جنگجوؤں کی افغانستان کے دیگر علاقوں میں منتقلی کے لیے 10 ارب روپے مانگے۔
  • یہ افسوس ناک ہے کہ پاکستانی حکام کس مقصد کے لیے ایسے دعوے کر رہے ہیں: حمد اللہ فطرت

طالبان حکومت نے پاکستان کے اس دعوے کو مسترد کردیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ طالبان نے ٹی ٹی پی جنگجوؤں کو 'ڈیورنڈ لائن' کے قریبی علاقوں سے افغانستان کے اندر منتقل کرنے کے لیے حکومتِ پاکستان سے 10 ارب روپے کا مطالبہ کیا تھا۔

طالبان کے حامی میڈیا اداروں کی جانب سے طالبان حکومت کے نائب ترجمان حمد اللہ فطرت کا ایکس پر پوسٹ کیا گیا ایک آڈیو پیغام چلایا گیا ہے جس میں وہ پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف کا رقم مانگنے سے متعلق دعویٰ مسترد کر رہے ہیں۔

ان کے بقول "یہ افسوس ناک ہے کہ پاکستانی حکام کس مقصد کے لیے ایسے دعوے کر رہے ہیں۔"

واضح رہے کہ پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف نے ایک مرتبہ پھر دعویٰ کیا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت نے ٹی ٹی پی جنگجوؤں کو سرحدی علاقوں سے افغانستان کے اندر دیگر حصوں میں منتقل کرنے کے لیے اسلام آباد سے 10 ارب روپے (تین کروڑ 60 لاکھ ڈالر) مانگے تھے۔

پاکستان کے نجی ٹی ٹی جیو نیوز کے پروگرام کیپیٹل ٹاک میں بدھ کو گفتگو میں خواجہ آصف نے سابق دورِ حکومت میں طالبان حکومت سے ہونے والی بات چیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس پاکستانی سرکاری وفد کا حصہ تھے جو ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں سے متعلق طالبان حکومت سے بات چیت کرنے گیا تھا۔

خواجہ آصف نے کہا کہ ہم نے طالبان حکام سے کہا کہ ہم 10 ارب روپے دے بھی دیں تو کیا ضمانت ہے کہ وہ واپس ان علاقوں میں نہیں آئیں گے تو اس کا طالبان حکومت کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔

واضح رہے کہ طالبان حکومت کے ترجمان ماضی میں اس طرح کے منصوبے کا ذکر کر چکے ہیں۔

طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے وزیرستان سے آنے والے پناہ گزینوں سے متعلق جون 2023 میں وائس آف امریکہ کو بذریعہ فون بتایا تھا کہ پناہ گزین اس وقت خوست، کنڑ اور دیگر ملحقہ افغان سرحدی صوبوں میں موجود ہیں۔

ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ "اماراتِ اسلامی انہیں (افغانستان میں) دور دراز صوبوں میں منتقل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ان کی (سرحدی) لائنز تک رسائی نہیں ہو نہ ہی وہ پاکستان میں ہونے والے حملوں یا تشدد کی کسی قسم کی کارروائی میں ملوث ہوں۔" تاہم انہوں نے اس کی مزید تفصیل نہیں بتائی تھی۔

افغانستان میں 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے پاکستان کے مغربی سرحدی علاقوں میں عسکریت پسندی میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

اسلام آباد کا الزام ہے کہ کابل کے طالبان حکام عسکریت پسندوں کو پناہ دینے اور افغان سر زمین کو پاکستان پر حملے کے لیے استعمال ہونے کی اجازت دیتے ہیں۔ طالبان حکومت ان الزام کی تردید کرتی ہے۔

دونوں ممالک کے درمیان حالیہ دنوں میں کشیدگی میں اس وقت اضافہ ہوا جب گزشتہ ماہ پاکستان کی افغانستان میں ایک مبینہ فضائی کارروائی میں طالبان حکومت کے مطابق خواتین اور بچوں سمیت کم از کم 46 افراد ہلاک ہوئے۔

طالبان حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ صوبہ پکتیکا میں پاکستان نے چار علاقوں میں کارروائی کی۔ تاہم پاکستان نے باضابطہ طور پر اس حملے کی تصدیق نہیں کی تھی۔

اس واقعے کے بعد طالبان اور پاکستانی سرحدی فورسز کے درمیان دونوں ممالک کو تقسیم کرنے والی 'ڈیورنڈ لائن' پر مختلف مقامات پر جھڑپیں ہوئی تھیں۔ طالبان نے پاکستانی سرحدی فورسز کے خلاف کارروائیوں کو 'جوابی آپریشن' کا نام دیا تھا۔

اسی کے ساتھ ساتھ افغانستان میں طالبان حکومت کے وزیرِ اطلاعات خیراللہ خیرخواہ نے اشارہ دیا تھا کہ اُن کی حکومت پاکستان مخالف عسکریت پسندوں کو پناہ دینے کا سلسلہ جاری رکھے گی۔

طالبان رہنما نے کہا تھا کہ ملکی روایات کے مطابق پاکستان سے آنے والے لوگ افغانستان کے "مہمان" ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG