افغان صدر اشرف غنی نے طالبان کو سنجیدہ امن مذاکرات میں شرکت کی پیشکش کی ہے۔
قبل ازیں امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد نے افغان صدر کو طالبان کے ساتھ اپنی بات چیت سے آگاہ کیا۔
وائس آف امریکہ اردو سروس کے پروگرام جہاں رنگ میں قمر عباس جعفری نے افغان امور کے دو ماہرین، لندن میں مقیم افغان صحافی اور تجزیہ کار میر ویس افغان اور پاکستان میں انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے بریگیڈیر سعد نذیر سے بات کی، جنہوں نے صورت حال کا تجزیہ کیا۔
میر ویس افغان نے زلمے خلیل زاد کے دورے کو مناسب قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس دورے سے افغان مفاہمت کے سلسلے میں بات آگے بڑھی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بقول ان کے زلمے خلیل زاد اور طالبان کے درمیان، جس سب سے اہم بات پر اتفاق ہوا، وہ امریکی افواج کا انخلاء ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی ساتھ طالبان کی طرف سے ان کی اطلاعات کے مطابق یقین دہانی بھی کرائی گئ ہے کہ افغانستان کی سرزمین کسی اور ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس بات چیت میں اور کئی باتوں پر بھی اتفاق ہوا۔ جن میں جنگ بندی اور افغان حکومت کے ساتھ طالبان کی بات چیت بھی شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ طالبان میں ان کے ذرائع نے انہیں بتایا ہے کہ بہت سی باتوں پر اتفاق ہوا لیکن ابھی کوئی باقاعدہ معاہدہ نہیں ہوا ہے اور اس کے لئے وقت درکار ہو گا۔
میر ویس کا کہنا تھا کہ اصل مشکل مرحلہ اس وقت آئے گا جب طالبان اور افغان حکومت کے درمیان بات چیت شروع ہو گی۔
بریگیڈیر سعد نذیر نے میر ویس سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ زلمے خلیل زاد کے دورے سے مثبت نتائج کی توقع کی جا رہی ہے۔ کیونکہ افغان امن صرف افغانستان ہی کے لئے بلکہ خطے کے تمام ممالک کے لئے انتہائی اہم ہے۔
اس بارے میں مزید جاننے کے لیے اس آڈیو لنک پر کلک کریں۔ گفتگو کا آغاز میر ویس سے ہو رہا ہے۔