امریکی طیارے سے لوگوں کے گرنے کی اطلاعات کی چھان بین کا آغاز کر دیا گیا
امریکی سنٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل فرینک میکنزی نے کابل کے حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے امریکیوں کے انخلاء کی کاروائیوں کے بارے میں ایک بیان میں کہا ہے کہ انہوں نے وہاں کی صورتِ حال معلوم کرنے کے لئے ان فوجی لیڈروں سے بات کی ہے جو ایئرپورٹ کو سیکیورٹی فراہم کر رہے ہیں۔
انہوں نے کابل سے نکلنے والے سویلینز کی محفوظ منتقلی اور انخلا کے کام میں مصروف پروازوں کے لئے ائیر پورٹ کی صورتحال کو تسلی بخش قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ فی الوقت ایئرپورٹ کا ایئر فیلڈ محفوظ ہے اور اسے سویلین پروازوں کے لئے کھول دیا گیا ہے۔ جبکہ امریکی فوجی اور محکمہ خارجہ کے اہل کارمل جل کر ایئر پورٹ کی حفاظت کو یقینی اور انخلاء کی کارروائی کو محفوظ بنا رہے ہیں۔
جنرل میکینزی نے مزید کہا کہ اتوار کے روز دوحہ میں طالبان کے سینئیر لیڈروں سے میٹنگز میں انہیں خبردار کیا گیا تھا کہ وہ امریکی فوجیوں اور شہریوں کے انخلاء کے کام میں مداخلت نہ کریں۔ اور اگر اس دوران کوئی حملہ کیا گیا تو اس کا جواب طاقت سے دیا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکی شہریوں اور اپنے رفقاء کی حفاظت امریکہ کی اولین ترجیح ہے اور امریکی سفارت خانہ ان کے انخلاء اور خطرے میں گھرے افغان شہریوں کو خصوصی ویزے جاری کر نے کا کام کر رہا ہے ۔
طالبان کی جانب سے آنے والے بیانات حوصلہ افزا ہیں، عمر داؤد زئی
صدر اشرف غنی کے سابق خصوصی ایلچی برائے پاکستان، محمد عمر داؤدزئی کا کہنا ہے کہ ابھی تک طالبان کی طرف سے جو بھی بیانات یا احکامات سامنے آئے ہیں وہ ''امید افزا'' ہیں۔
بقول ان کے، "یہی فرق ہے ابھی کے طالبان اور نوے کی دہائی کے طالبان میں۔ اب ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ آج کے طالبان بدل چکے ہیں۔ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ ملک کی 43 سالہ جنگ ختم ہو رہی ہے جب کہ افغانستان کی سیکیورٹی کی صورت حال تیزی سے بہتری کی طرف گامزن ہے"۔
وائس آف امریکہ کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں سفارت کار نے کہا کہ وہ گزشتہ ہفتے کے روز کابل سے دبئی آئے اور آئندہ دنوں میں افغانستان واپس جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ''مستقبل کی حکومت میں طالبان اگرچہ تمام فریقوں کی شمولیت کی بات کرتے ہیں، لیکن آئندہ دنوں میں پتا چل سکے گا کہ عملی طور پر ایسا ہوتا ہے یا نہیں؟ لیکن انہیں ہم سے بھی بات کرنی چاہیے، کیونکہ ہم گزشتہ چند دہائیوں سے حکومت اور انتظامیہ میں رہے ہیں اور ہمارے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے"۔
صدر اشرف غنی گزشتہ ہفتے افغانستان سے کسی نامعلوم مقام کی جانب چلے گئے ہیں۔ اس بارے میں عمر داؤدزئی نے بتایا کہ ان کا اشرف غنی سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔
"مجھے نہیں معلوم کہ وہ کہاں ہیں ۔جب مجھے یہ پتا چلا کہ اشرف غنی افغانستان سے چلے گئے ہیں تو میں حیران بھی ہوا اور ناامید بھی۔ افغانستان میں طالبان کے ساتھ حالیہ لڑائی شروع ہونے کے بعد سے ان سے میرے تعلقات اچھے نہیں تھے۔ میں صلح کے آپشن کو ترجیح دیتا تھا لیکن صدر غنی نے جنگ کا راستہ اختیار کیا، جو میری ترجیح نہیں تھی"۔
منگل کے روز صدر بائیڈن نے اپنے خطاب میں کہا کہ اگر افغانستان کی اپنی فوج اپنے ملک کے دفاع کے لئے لڑنا نہیں چاہتی، تو امریکی فوجی کیوں اس کام کے لئے اپنی جان داؤں پر لگائیں۔
انخلا کا صدر بائیڈن کا فیصلہ عین قومی مفاد میں ہے، مشیر قومی سلامتی
صدر جو بائیڈن کے مشیر برائے قومی سلامتی، جیک سلیوان نے کہا ہے کہ افغانستان سے انخلا کے فیصلے کی بنیاد 2020 میں طالبان کے ساتھ دوحہ میں ہونے والا سمجھوتا ہے، اور یہ کہ پچھلے ایک سال سے افغان افواج ملکی دفاع کے فرائض انجام دے رہی تھیں، جب کہ امریکہ کی جانب سے انہیں تربیت، اسلحہ اور فضائی مدد حاصل رہی۔
وائٹ ہاؤس کی اخباری بریفنگ کے دوران، سلیوان نے صدر جو بائیڈن کی جانب سے انخلا کے فیصلے کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ 'کمانڈر ان چیف' کے پاس دو ہی آپشن تھے: انخلا یا پھر افغانستان میں مزید فوج تعینات کرنا۔ صدر نے انخلا کا فیصلہ کیا، جو عین قومی مفاد میں تھا۔
بقول ان کے، ''صدر نے قومی مفاد میں درست فیصلہ کیا''، کیونکہ اضافی فوج تعینات کرنے کا مطلب یہ ہوتا کہ خانہ جنگی کی صورت میں جانیں دی جائیں۔ انہوں نے جو بائیڈن کے الفاظ دہرائے کہ اگر افغان فوج اپنا دفاع خود کرنے پر تیار نہیں، تو یہ کام کوئی اور نہیں کر سکتا۔
ایک سوال کے جواب میں مشیر قومی سلامتی نے کہا کہ 20 سال تک افغانستان کے لیےامریکی فوج نے اپنی جانوں تک کا نذرانہ دیا، لڑائی میں بہت سارے فوجی اہل کار زخمی ہوئے؛ جب کہ امریکہ نے ایک ٹریلین ڈالر سے زائد رقوم خرچ کیں، دو لاکھ افغان فوج تیار کی جسے جدید تربیت اور اسلحہ فراہم کیا گیا۔
پاکستان میں مقیم افغان طالب علم اپنے ملک کی صورت حال کو کس طرح دیکھ رہے ہیں؟
پاکستان میں مقیم افغان طالب علم ایک بار پھر اپنے آبائی وطن کے مستقبل کے بارے میں غیر یقینی صورت حال کے بارے میں متفکر ہیں۔ افغانستان کے موجودہ حالات کے بار ے میں وائس آف امریکہ نے اسلام آباد میں موجود کچھ افغان طلباء کی رائے معلوم کی ہے۔ ان کے تاثرات اس ویڈیو دیکھیئے۔