صدر جو بائیڈن کے مشیر برائے قومی سلامتی، جیک سلیوان نے کہا ہے کہ افغانستان سے انخلا کے فیصلے کی بنیاد 2020 میں طالبان کے ساتھ دوحہ میں ہونے والا سمجھوتا ہے، اور یہ کہ پچھلے ایک سال سے افغان افواج ملکی دفاع کے فرائض انجام دے رہی تھیں، جب کہ امریکہ کی جانب سے انہیں تربیت، اسلحہ اور فضائی مدد حاصل رہی۔
وائٹ ہاؤس کی اخباری بریفنگ کے دوران، سلیوان نے صدر جو بائیڈن کی جانب سے انخلا کے فیصلے کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ 'کمانڈر ان چیف' کے پاس دو ہی آپشن تھے: انخلا یا پھر افغانستان میں مزید فوج تعینات کرنا۔ صدر نے انخلا کا فیصلہ کیا، جو عین قومی مفاد میں تھا۔
بقول ان کے، ''صدر نے قومی مفاد میں درست فیصلہ کیا''، کیونکہ اضافی فوج تعینات کرنے کا مطلب یہ ہوتا کہ خانہ جنگی کی صورت میں جانیں دی جائیں۔ انہوں نے جو بائیڈن کے الفاظ دہرائے کہ اگر افغان فوج اپنا دفاع خود کرنے پر تیار نہیں، تو یہ کام کوئی اور نہیں کر سکتا۔
ایک سوال کے جواب میں مشیر قومی سلامتی نے کہا کہ 20 سال تک افغانستان کے لیےامریکی فوج نے اپنی جانوں تک کا نذرانہ دیا، لڑائی میں بہت سارے فوجی اہل کار زخمی ہوئے؛ جب کہ امریکہ نے ایک ٹریلین ڈالر سے زائد رقوم خرچ کیں، دو لاکھ افغان فوج تیار کی جسے جدید تربیت اور اسلحہ فراہم کیا گیا۔
جیک سلیوان نے یاد دلایا کہ سال 2010ء میں اعلان کیا گیا تھا کہ 2011ء کے دوران امریکی فوج واپس چلی جائے گی، جس کے بعد سات گزر گئے اور پچھلے سال دوحہ میں طالبان امریکہ کے مابین ہونے والے معاہدے کے تحت امریکی افواج کا انخلا طے ہوا۔
افغانستان میں طالبان کی کابل کی جانب تیزی سے پیش قدمی اور قبضے کے معاملے پر، صدر بائیڈن سمیت ہم سب کو شدید افسوس ہے۔
تاہم، قومی سلامتی کے مشیر نے کہا کہ افغانستان میں افواج کی تعیناتی کا مقصد دہشت گردی کا انسداد اور اسامہ بن لادن کو کیفر کردار تک لانا تھا، ان مقاصد کو کامیابی سے حاصل کیا جا چکا ہے۔
ایک اور سوال کے جواب میں جیک سلیوان نے کہا کہ یہ بات طے ہے کہ 2001ء کے مقابلے میں 2021ء میں طالبان کی سوچ ایک جیسی نہیں ہے، اور امریکہ کو یقین ہے کہ طالبان اور داعش (خوراسان) کے درمیان موجود رقابت قربت میں بدلنے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔