امریکہ اور برطانیہ کا افغانستان سے اپنے شہری نکالنے کے لیے فوجی دستے بھیجنے کا اعلان
افغانستان کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر امریکہ اور برطانیہ نے وہاں سے اپنے شہریوں کے بحفاظت انخلا کے لیے فوری طور پر فوجی دستے بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ امریکہ تین ہزار جب کہ برطانیہ اپنے چھ سو فوجی بھیج رہا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا ہے کہ کابل کے امریکی سفارت خانے میں تعینات سویلین عملے میں کچھ کمی کی جا رہی ہے، اور کچھ ارکان کو واپس بلایا جا رہا ہے۔
جمعرات کے دن اخباری بریفنگ کے دوران، ترجمان نے واضح کیا کہ کابل کا سفارت خانہ بند نہیں کیا جا رہا۔ تاہم، سیکیورٹی اور امن و امان کی صورت حال کے پیش نظر، دیگر اقدامات کرنا ضروری ہو گیا ہے۔
ادھر امریکی عہدیداروں نے بتایا ہے کہ امریکہ اپنے تین ہزار اضافی فوجی افغانستان بھیج رہا ہے جو کابل میں امریکی سفارتی عملے کے انخلاء میں مدد دیں گے۔
امریکی محکمہ دفاع کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ یہ فوجی افغانستان میں پہلے سے موجود 650 فوجیوں سے جا ملیں گے۔
طالبان کے خوف سے افغانستان میں 90 سے زیادہ میڈیا ادارے بند ہو گئے
افغانستان میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر میڈیا کے 90 سے زیادہ اداروں نے اپنے دفاتر بند کر دیے ہیں، کیونکہ ملک بھر میں صحافیوں کے لیے خطرات بڑھ گئے ہیں۔
افغان عہدے داروں نے بدھ کے روز بتایا کہ میڈیا کے بہت سے دفاتر ان صوبوں میں تھے جہاں طالبان پہنچ چکے ہیں۔
عہدے داروں اور صحافیوں کا کہنا ہے کہ صرف جنوبی صوبے ہلمند میں 12 ریڈیو اور 4 ٹیلی وژن اسٹیشن بند ہوئے ہیں، کیونکہ وہاں کے صدر مقام لشکرگاہ میں شدید لڑائی ہو رہی ہے۔
ہلمند میں 'سکون ریڈیو' کے بانی سیف اللہ زاہدی نے بتایا ہے کہ "لوگ اپنے گھروں سے باہر نہیں نکل سکتے۔ چنانچہ، حفاظتی اقدام کے طور پر ہم نے دو روز پہلے شہر میں جہاں ریڈیو اسٹیشن واقع ہے، لڑائیوں کا دائرہ پھیلنے پر اپنی نشریات بند کر دیں تھیں۔
زاہدی نے، جو کابل میں قائم ون ٹی وی کے لیے رپورٹنگ بھی کرتے ہیں، وائس آف امریکہ کو بتایا کہ زیادہ تر صحافی اب اپنے گھروں سے کام کر رہے ہیں۔
مزید پڑھیے
طالبان کی پیش قدمی روکنے کے لیے جنگجو سردار رشید دوستم متحرک
ایک ہفتے کے دوران افغانستان کے 10 سے زیادہ صوبائی دارالحکومتوں پر طالبان قبضہ کر چکے ہیں اور یہ قبضہ چھڑانے کے لیے افغان حکومت اور جنگجو سردار متحرک ہو گئے ہیں۔
طالبان کے خلاف افغانستان کے مصروف جنگجو کمانڈر اور سیاسی رہنما جنرل عبدالرشید دوستم نے طالبان عسکریت پسندوں کی پیش قدمی روکنے اور ان سے آبائی صوبے جوزجان کو دوبارہ آزاد کرانے کے لیے ایک نئی حکمتِ عملی پر کام شروع کر دیا ہے۔
کابل سے آمدہ اطلاعات کے مطابق صدر اشرف غنی کی قیادت میں افغان رہنماؤں نے حال ہی میں مزار شریف کا دورہ کیا تھا۔ اس موقع پر رشید دوستم کے علاوہ قومی سلامتی کے مشیر حمد اللہ محب اور اعلیٰ فوجی عہدیداروں نے ایک مشترکہ بیٹھک بھی کی تھی۔
مبصرین کے مطابق بعض صوبوں میں افغان فوج کی حالیہ پسپائی کے بعد صدر غنی نے جنگو سرداروں اور ان کی ملیشیاز پر انحصار کرنا شروع کر دیا ہے۔
سڑسٹھ سالہ جنگجو کمانڈر رشید دوستم ترکی میں کئی مہینے گزارنے کے بعد چھ اگست کو ہی کابل پہنچے ہیں جہاں انہوں نے صدر غنی اور دیگر رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں اور افغانستان کی تازہ ترین صورتِ حال پر تبادلۂ خیال کیا تھا۔
کابل میں موجود صحافیوں اور تجزیہ کاروں کے مطابق رشید دوستم نے ایسے موقع پر ترکی سے وطن واپسی کی ہے جب طالبان عسکریت پسندوں نے ان کے آبائی صوبے جوزجان کے مرکزی انتظامی شہر شبرغان میں ان کے ذاتی محل نما گھروں اور حجروں پر اپنے سفید جھنڈے لہرائے۔
مزید پڑھیے
افغانستان کے دو بڑے شہروں قندھار اور ہرات پر طالبان کا قبضہ
طالبان نے افغانستان کے دو بڑے شہروں قندھار اور ہرات پر قبضہ کر لیا ہے۔ یہ دونوں شہر کابل کے بعد افغانستان کے دوسرے اور تیسرے بڑے شہر ہیں۔ خدشہ ہے کہ اس قبضے سے ایک ایسے وقت میں افغان حکومت کا دائرہ مزید محدود ہو جائے گا جب امریکی افواج کے انخلا کے مکمل ہونے کی تاریخ قریب آرہی ہے۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق جمعرات کی شب قندھار اور ہرات پر قبضے سے طالبان افغانستان کے 34 میں سے 12 صوبائی دارالحکومتوں پر قابض ہو گئے ہیں۔
خبر رساں ادارے رائٹرز نے جمعے کو رپورٹ کیا ہے کہ افغان حکام نے قندھار شہر پر طالبان کے قبضے کی تصدیق کی ہے۔
اگرچہ اب تک افغان دارالحکومت کابل خطرے کی زد میں نہیں آیا تاہم دیگر مقامات پر باغیوں سے لڑائی میں نقصانات اور افغانستان کے لگ بھگ دو تہائی علاقے پر قبضے طالبان کو مضبوط بنا رہے ہیں۔
افغانستان کی حکومتی سیکیورٹی فورسز ایک ہفتے سے عسکریت پسندوں کی پیش قدمی روکنے کے لیے سخت مشکلات سے دوچار ہے۔
امریکہ کے نمائندۂ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ ہم ایک مرتبہ پھر مطالبہ کرتے ہیں کہ فوری طور پر شہروں پر حملوں کا سلسلہ ترک کرتے ہوئے سیاسی مصالحت کے راستے کا انتخاب کیا جائے۔
انہوں نے اپنے ایک ٹوئٹ میں خبردار کیا کہ بزور طاقت مسلط ہونے والی حکومت کو کوئی تسلیم نہیں کرے گا۔
مزید پڑھیے