دوحہ مذاکرات کا مشترکہ اعلامیہ: 'افغانستان میں امن کے لیے جامع حکمتِ عملی پر اتفاق ضروری ہے'
قطر کے دارالحکومت دوحہ میں رواں ہفتے افغانستان سے متعلق ہونے والے مذاکرات میں شریک ملکوں کے نمائندوں نے افغانستان میں امن عمل کو تیز کرنے کو ضروری قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ افغانستان کے تمام شہروں اور صوبائی دارالحکومتوں پر زمینی اور فضائی حملوں کو فوری بند کیا جائے۔
قطر میں افغان اور طالبان مذاکرات کاروں سے ہونے والی ملاقاتوں کے بعد سفارتی نمائندوں کی طرف سے جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے میں ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا گیا ہے کہ فوجی طاقت کے زور پر افغانستان پر مسلط ہونے والی کسی حکومت کو تسلیم نہیں کریں گے۔
جمعرات کو جاری کردہ یہ اعلامیہ ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب طالبان نے ملک کے شمال اور جنوب مغرب میں واقع متعدد صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کر لیا ہے اور بین الاقوامی برداری کی تشویش اور مطالبات کے باجود طالبان اپنی عسکری کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
دوحہ میں 10 اور 12 اگست کو ہونے والے ان مذاکرات میں امریکہ، چین، پاکستان، ازبکستان، برطانیہ، یورپی یونین، اقوامِ متحدہ اور کئی دیگر ممالک کے سفارت کاروں نے شرکت کی۔
مذاکرات کے بعد جاری ہونے اعلامیے کے مطابق دوحہ مذاکرات میں شریک ممالک نے افغانستان بھر میں جاری تشدد، بڑے پیمانے پر عام شہریوں کی ہلاکت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں سامنے آنے والی اطلاعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
کابل میں واقع کاردان یونیورسٹی سے منسلک بین االاقوامی امور کے ماہر فہیم سادات کہتے ہیں کہ افغانستان میں قیامِ امن کے لیے مل کر کوششیں اسی صورت کامیاب ہو سکتی ہیں جب تک ایک جامع حکمت عملی پر اتفاق نہیں ہوجاتا۔
مزید پڑھیے
طالبان کابل کے گرد گھیرا تنگ کر رہے ہیں؛ پینٹاگان کا انتباہ
طالبان جنگجوؤں نے افغانستان میں بظاہر کابل پر قبضہ جمانے کے لیے اپنی کارروائیوں کی رفتار تیز کر دی ہے۔
طالبان نے جمعے کو افغانستان کے پانچ بڑے صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا جن میں بالترتیب افغانستان کا دوسرا بڑا شہر قندھار اور تیسرا بڑا شہر ہرات بھی شامل ہیں۔
اس سے قبل طالبان غزنی کا کنٹرول حاصل کر چکے ہیں جو قندھار سے کابل کی جانب جانے والے راستے کا کلیدی شہر ہے اور دارالحکومت سے صرف 150 کلو میٹر فاصلے پر ہے۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق طالبان جنگجوؤں نے کابل سے 50 کلو میٹر دور پڑاؤ ڈالا ہے۔ جب کہ امریکہ اور دیگر ممالک نے اپنے شہریوں کو کابل سے نکالنے کے لیے کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔
افغانستان میں داخلی سلامتی کی صورتِ حال پر واشنگٹن میں تشویش پائی جاتی ہے۔ جمعے کو امریکہ کے محکمۂ دفاع پینٹاگان کے ترجمان جان کربی نے کہا تھا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں وہ (طالبان) کابل کے گرد گھیرا تنگ کر رہے ہیں۔
نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کابل کی صورت حال سے متعلق کہا تھا کہ ابھی وہاں زیادہ بڑے خطرے کا ماحول نہیں ہے۔
البتہ انہوں نے طالبان کی پیش قدمی کی رفتار کو ’گہری تشویش‘ کا باعث قرار دیا تھا۔
مزید پڑھیے
امریکی فوجی سفارتی عملے کے بحفاظت انخلا کے لیے کابل پہنچ گئے
افغانستان سے کچھ امریکی سفارت کاروں اور ہزاروں افغان باشندوں کو تیز رفتاری اور حفاظت سے نکالنے کے لئے امریکی فوج کی میرین فورس کی پہلی بٹالین جمعے کے روز کابل پہنچ گئی ہے۔ یہ قدم افغانستان میں طالبان کے تیزی سے صوبائی دارالحکومتوں پر قبضے اور کابل کے لیے بڑھتے ہوئے خطرات کے پیش نظر اٹھایا گیا ہے۔
امریکہ محکمہ دفاع پینٹاگان کے ترجمان جان کربی نے بتایا کہ بٹالین کے ارکان اب کابل میں ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اختتام ہفتہ امریکہ اپنے مزید فوجی کابل میں بھیج رہا ہے تاکہ مزید امریکیوں اور ان کے افغان ساتھیوں کو جلد از جلد وہاں سے نکالنے میں مدد فراہم کی جا سکے۔
افغانستان میں امریکہ اپنا فوجی مشن اس مہینے کے آخر تک مکمل کر رہا ہے جب کہ دوسری طرف طالبان تیزی سے صوبوں پر قبضے کرتے جا رہے ہیں۔
یورپی یونین کے مطابق اس وقت ملک کے دو تہائی علاقے پر طالبان کا کنٹرول ہے اور وہ تیزی سے دارالحکومت کابل کے قریب ہوتے جا رہے ہیں۔ جمعے کے روز انہوں نے چار صوبوں کے صدر مقام اپنے قبضے میں لے لیے۔
مزید پڑھیے
طالبان جنگ جاری رکھنے کے لیے مالی وسائل کہاں سے حاصل کر رہے ہیں؟
افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی اور ملک کے نصف کے قریب صوبائی دارالحکومتوں پر قبضے بعض حکام اور عالمی مبصرین کے لیے حیرت کا باعث ہیں۔ خاص طور یہ سوال اہم ہے کہ اس بڑے پیمانے پر لڑائی جاری رکھنے کے لیے طالبان مالی وسائل کہاں سے حاصل کر رہے ہیں۔
مبصرین کے مطابق طالبان کی تیز ترین پیش قدمی کا تعلق ان کے پاس موجود بڑے پیمانے پر مالی وسائل سے ہے جس کے نتیجے میں اس گروہ کو کروڑوں اور شاید اربوں ڈالرز تک رسائی ہوئی ہے۔
وائس آف امریکہ کے لیے جیف سیلڈن کی ایک رپورٹ کے مطابق خفیہ اداروں کا کہنا ہے کہ طالبان مالی وسائل جمع کرنے کی کتنی اہلیت رکھتے ہیں اس کا درست اندازہ لگانا ممکن نہیں۔ البتہ طالبان جنگجوؤں کی مالی اعتبار سے موجودہ خود انحصاری سے تخمینہ لگایا جا سکتا ہے کہ گروپ کی آمدن 30 کروڑ ڈالرز سے ایک ارب 60 کروڑ ڈالرز سالانہ تک ہو سکتی ہے۔
رواں برس جون میں جاری ہونے والی دیگر ممالک کی فراہم کردہ انٹیلی جنس اطلاعات پر مبنی اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق طالبان زیادہ تر افیون کی پیداوار، منشیات کی اسمگلنگ، بھتے اور اغوا برائے تاوان جیسی مجرمانہ سرگرمیوں سے مالی وسائل حاصل کر رہے ہیں۔
ایک خفیہ ادارے کا کہنا ہے کہ اس میں صرف منشیات کی اسمگلنگ سے ہونے والی کمائی ممکنہ طور پر 46 کروڑ ڈالرز سالانہ سے زائد ہے۔
اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق طالبان نے اپنے زیرِ تسلط علاقوں میں پائے جانے والے قدرتی وسائل سے بھی اضافی رقم حاصل کی ہے۔ انہیں گزشتہ برس کان کنی سے 46 کروڑ ڈالر سے زائد رقم حاصل ہوئی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ طالبان قیادت کو ’غیر سرکاری خیراتی اداروں‘ اور امیر حامیوں سے بھی بڑی تعداد میں عطیات اور امداد ملتی ہے۔
مزید پڑھیے