پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے مجوزہ سیاسی عمل میں طالبان کو ایک سیاسی گروپ کی حیثیت سے تسلیم کرنے کی پیش کش کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کام ملک افغان طالبان کے ساتھ براہ راست بات چیت میں مدد کے لیے تیار ہے۔
ایک روز قبل صدر اشرف غنی نے کابل پراسس کانفرنس میں طالبان کو ایک باقاعدہ سیاسی گروپ کے طور پر تسلیم کرنے کی پیش کش کرتے ہوئے انہیں امن مذاكرات کا حصہ بننے کے لیے کہا تھا۔
صدر غنی نے اپنی اس تقریر میں یہ بھی کہا تھا کہ وہ ماضی کو بھلا کر پاکستان کے بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔ اسلام آباد نے ان کے ان بیان کا خیرمقدم کیا ہے۔
اس سے قبل صدر غنی یہ تواتر سے الزام لگاتے رہے ہیں کہ افغانستان کے اندر مہلک حملے کرنے والے طالبان کے محفوظ ٹھکانے سرحد پار ہیں جہاں سے وہ حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں اور انہیں وہاں سے مدد بھی ملتی ہے۔
پاکستان ان الزامات کو مسترد کرتا آیا ہے۔
روزنانہ ڈان کی ایک خبر کے مطابق خواجہ آصف نے جمعرات کے روز کہا کہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان بات چیت حقیقت میں دو سیاسی قوتوں کے درمیان مکالمہ ہے اور پاکستان اس کی حمایت کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اس سلسلے میں افغان طالبان کے ساتھ براہ راست بات چیت سے متعلق مصالحتي کوشش کے لیے تیار ہے۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان غیر یقینی کے ایک دور سے گذر رہا ہے اور یقینی طور پر ہم اس پر قابو پا لیں گے۔
پاک بھارت مذاكرات کے لیے حالیہ امریکی دلچسپی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کو اس سے پہلے اپنی جنوبی ایشیائی پالیسی میں کچھ توازن پیدا کرنا چاہیے۔
صدر اشرف غنی نے اپنے مجوزہ امن منصوبے میں جنگ بندی اور قیدی کی رہائی سمیت متعدد تجاویز پیش کیں ہیں جن عسکریت پسندوں کی شمولیت کے ساتھ نئے انتخابات بھی شامل ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اس تنازع کو ختم کرنے کے لیے طالبان کے ساتھ معاہدے کے ایک حصے کے طور پر آئین پر نظر ثانی کے لیے بھی تیار ہیں۔
طالبان تنازع کے نتیجے میں صرف گذشتہ سال 10 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک و زخمی ہو چکے ہیں۔
صدر غنی نے افغان طالبان اور ان کے خاندان کے افراد کو ویزے دینے اور کابل میں اپنا دفتر قائم کرنے کی بھی پیش کش کی۔
انہوں نے کہا کہ طالبان قیدیوں کو رہا کیا جا سکتا ہے اور ان کے نام دہشت گردوں کی عالمی فہرست سے نکلوانے کے اقدامات کیے جا سکتے ہیں اور وہ مصالحت کے عمل میں شامل ہونے والے طالبان کو سیکیورٹی فراہم کرنے پر بھی تیار ہیں۔
افغان صدر نے سابق جنگجوؤں اور افغان پناہ گزینوں کو معاشرے میں جذب کرنے اور روزگار فراہم کرنے کی بھی پیش کش کی ۔
افغان صدر نے کہا کہ وہ اپنی پیش کش کے جواب میں طالبان کی جانب سے یہ چاہتے ہیں کہ وہ افغان حکومت کو تسلیم کریں، قانون اور خواتین کے حقوق کا احترام کریں۔
طالبان لیڈر یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان پر دوست ممالک کی جانب سے یہ دباؤ ہے کہ وہ بات چیت کی پیش کش قبول لیں۔ تاہم انہوں نے ابھی تک صدر غنی کی پیش کش کا کوئی براہ راست جواب نہیں دیا لیکن ایک امریکی جریدے نیویارکر میں شائع ہونے والے ایک خط کے جواب میں، جس میں ان پر مذاكرات کے لیے زور دیا گیا تھا، طالبان کے ترجمان نے کہا ہے کہ افغان حکومت افغانستان کے عوام پر امریکہ نے مسلط کی ہے جس سے بات چیت کا مطلب امریکی قبضے کو تسلیم کرنا ہے۔