طالبان عسکریت پسند گروپ کے ایک سینئر رہنما نے توقع ظاہر کی ہے کہ اس مہینے کے آخر تک عالمی ضامنوں کی موجودگی میں امریکہ کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط ہو جائیں گے جس کے نتیجے میں افغانستان میں جاری 18 سالہ جنگ کا خاتمہ ہو جائے گا۔
عسکریت پسند گروپ کے ایک سینئر رہنما نے طالبان کی حامی ایک نیوز ایجنسی کو بتایا کہ دونوں فریقوں نے باہمی طور پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ قطر کے صدر مقام دوحہ میں معاہدے پر دستخطوں کی ایک تقریب کا اہتمام کریں گے۔ یہ وہ شہر ہے جس نے امریکہ اور طالبان کے درمیان 18 ماہ تک مذاکرات کی میزبانی کی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ معاہدے پر دستخط ہونے کے فوراً بعد امریکہ اور افغانستان 5000 طالبان قیدیوں کو رہا کر دیں گے۔ جب کہ اس کے جواب میں طالبان اپنی حراست میں موجود تقریباً ایک ہزار قیدی چھوڑیں گے۔
منگل کے روز کابل میں افغانستان کے قائم مقام وزیر داخلہ مسعود اندرابی نے بتایا ہے کہ تقریباً پانچ روز کے اندر اندر تشدد کی کارروائیوں میں کمی لانے کی میعاد کا آغاز ہوگا۔
انھوں نے یہ بات ملک کے 34 صوبائی پولیس سربراہان کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی ہے۔
مسعود اندرابی نے کہا کہ افغان سیکورٹی فورسز معاہدے کی پاسداری اور صورت حال کا قریب سے مشاہدہ کریں گی۔
تاہم، انھوں نے کہا کہ ’’اگر طالبان نے حملہ کیا تو افغان سیکورٹی فورسز اور رزولوٹ سپورٹ فورسز اس کا جواب دیں گی‘‘۔
تاہم، واشنگٹن نے اپنے اس مؤقف پر زور دیا ہے کہ صرف اس صورت میں طالبان کے ساتھ امن معاہدے پر آگے بڑھا جائے گا جب طالبان افغانستان میں تشدد میں سات روز کی کمی سے متعلق ہاہمی طور پر طے شدہ سمجھوتے پر کامیابی سے عمل درآمد کریں گے۔
امریکی عہدے داروں نے کہا ہے کہ مختصر مدت کا یہ سمجھوتہ گزشتہ ہفتے ہوا تھا اور یہ بہت جلد نافذ ہو جائے گا۔ تاہم اس بارے میں کوئی تاریخ نہیں بتائی گئی۔ جب کہ طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ 22 فروری سے نافذ ہو گا۔
معاہدے کے تحت دونوں فریق سات روز تک اپنے حملے بند کر دیں گے۔ اگر دونوں فریقوں نے اپنا وعدہ پورا کیا تو وہ امن معاہدے پر دستخطوں کے لیے دوبارہ مذاکرات کی میز پر واپس آ جائیں گے۔ یہ معاہدہ گزشتہ سال ثالثوں کی موجودگی میں کئی طویل نشستوں کے بعد کاغذ پر منتقل ہوا تھا۔
معاہدے میں افغانستان سے امریکی اور اتحادی افواج کی واپسی کے لیے نظام الاوقات طے اور اس تنازع کی فریق افغان پارٹیوں کے درمیان سیاسی مفاہمت کا عمل شروع کرنے کا کہا گیا ہے۔
امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر نے جرمنی میں سیکیورٹی سے متعلق کانفرنس کے موقع پر کہا تھا کہ طالبان کے ساتھ تشدد میں کمی ایک بہت مثبت پیش رفت ہے لیکن یہ خطرات سے خالی نہیں ہے۔
ایسپر نے یہ بھی کہا تھا کہ امن معاہدے کے نتیجے میں امریکہ افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد 13000 سے گھٹا کر تقریباً 8600 تک لے جائے گا۔
امریکی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ فوجیوں کی تعداد میں کمی کا تعلق طالبان افغان امن مذاکرات سے منسلک ہے۔