امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر نے ہفتے کے روز کہا ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والا سمجھوتا، جس کے نتیجے میں افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا ممکن ہو گا، خدشات سے خالی نہیں، لیکن ''بہت ہی امید افزا ہے''۔
سات دن کے لیے تشدد کی کارروائیوں میں کمی لانے سے متعلق معاہدے کا باضابطہ اعلان ہونا ابھی باقی ہے۔ ایسپر نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ افغانستان میں سیاسی مذاکرات کے ذریعے امن کو ایک موقع دیا جائے۔
اس سے ایک ہی روز قبل ایک اعلیٰ امریکی اہل کار نے بتایا تھا کہ سمجھوتا طے پا گیا ہے اور اس پر بہت جلد عمل درآمد ہو گا۔
توقعات یہی ہیں کہ سمجھوتے کا اعلان اتوار کو ہو گا اور تشدد کی کارروائیوں میں کمی کا آغاز پیر کے دن سے ہو گا۔ یہ بات منصوبے سے آگاہ افراد نے بتائی ہے۔
مارک ایسپر نے میونخ میں سلامتی سے متعلق اجلاس کو بتایا کہ ''اس وقت تشدد کی کارروائیوں میں کمی کی تجویز میز پر پیش کی گئی ہے، جو ہمارے سفیر اور طالبان کے مابین مذاکرات کے ذریعے طے ہوئی''۔ سمجھوتے کے بارے میں انھوں نے کہا کہ ''یہ بہت ہی امید افزا لگتا ہے''۔
بقول ان کے، ''میرا بھی یہی خیال ہے کہ ہمیں امن کو ایک موقع دینا چاہیے۔ یہ اچھی بات ہو گی۔ سیاسی بات چیت کے ذریعے افغانستان کے لیے یہ واحد پیش رفت نہ سہی، پھر بھی بہتر ہے۔ اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ اس کے لیے کچھ خطرہ مول لینا ہو گا''۔
انھوں نے کہا کہ ''اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے سفارت کاروں کی مدد کی جائے اور اپنے ساتھیوں اور اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کیا جائے، تاکہ اس معاملے پر عمل درآمد شروع ہو''۔
ایسپر اور وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے جمعے کے دن میونخ میں صدر اشرف غنی سے ملاقات کی، جو اس سوچ پر تذبذب کا شکار رہے ہیں۔ اگر یہ کامیاب ہوتی ہے، تو اس کے نتیجے میں سات دن تک حملے بند ہو جائیں گے، اور پھر امریکہ اور طالبان امن معاہدے پر دستخط کریں گے۔ دس دن کے اندر اندر بین الافغان امن بات چیت شروع ہو جائے گی، جس میں آئندہ 18 ماہ کے اندر امریکی افواج کے مرحلہ وار انخلا کے لیے کہا گیا ہے۔
بعد ازاں، اپنے ساتھ سفر کرنے والے اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے، ایسپر نے اس سوال کا جواب دینے سے گریز کیا آیا امریکہ افغانستان میں اپنی فوج کی سطح صفر تک لانے پر رضامند ہے۔ انھوں نے کہا کہ سات دن کی جنگ بندی کامیاب ہوتی ہے اور دوسرے قدم کے طور پر بین الافغان امن بات چیت کا آغاز ہوتا ہے، تو امریکہ مرحلہ وار اپنی فوج کو تقریباً 8600 کی تعداد تک لے آئے گا۔ اس وقت ملک میں تقریباً 12000 امریکی فوج تعینات ہے۔
اشرف غنی نے اب تک سمجھوتے کے بارے میں کھلے عام کوئی بات نہیں کی، جسے گزشتہ ہفتے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں خصوصی امریکی ایلچی برائے افغان مفاہمت، زلمے خلیل زاد اور طالبان کے نمائندوں نے حتمی شکل دی تھی۔
تاہم، ایسپر نے کہا کہ اشرف غنی سمجھوتے کی حمایت کرتے ہیں اور وعدہ کیا ہے کہ وہ اس کی حمایت کے لیے تمام کوششیں کریں گے۔
صدر غنی کے لیے ایسپر نے کہا کہ ''میرے خیال میں وہ اس کا مکمل ساتھ دے رہے ہیں۔ وہ اس عمل میں اپنے حصے کا کام کرنا چاہتے ہیں، اور اگر ہم وہاں تک پہنچے تو امن معاہدے کا اگلا مرحلہ بین الافغان مذاکرات کی صورت میں سامنے آئے گا۔ صاف طور پر وہ اس عمل میں ایک مکمل شریک بننے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تمام افغان اتحاد کا مظاہرہ کریں''۔
ادھر، کابل سے موصول ہونے والی ایک اور خبر کے مطابق، امریکی کانگریس کے ایک وفد نے ہفتے کے روز صدر اشرف غنی سے ملاقات کی۔
صدارتی محل کے ترجمان نے ایک اخباری بیان میں کہا ہے کہ ملاقات کے دوران دوطرفہ تعاون، دہشت گردی کے خلاف لڑائی، افغانستان اور خطے کی سلامتی کی صورت حال اور افغانستان کے لیے امریکہ کی حمایت میں توسیع کے امور اور باہمی دلچسی کے معاملات پر گفتگو کی گئی۔