رسائی کے لنکس

گوادر کے تاج محل سنیما کی عمارت مخدوش، یادیں تازہ


تاج محل سنیما، گوادر (فائل فوٹو)
تاج محل سنیما، گوادر (فائل فوٹو)

'گوادر شہر کی آبادی اس وقت پانچ سے چھ ہزار تھی اور یہاں سنیما میں 800 سے 1000 لوگ فلم دیکھنے آیا کرتے تھے کیوں کہ یہ اس شہر کی واحد تفریح تھی۔ اس زمانے میں 10 سے 15 فلمیں یہاں ایک ماہ کے لیے بذریعہ لانچ کراچی سے لائی جاتی تھیں، جو فلم بہت زیادہ دیکھی جاتی اسے مزید روک لیا جاتا تھا۔ پھر یہ فلمیں واپس بھیجی جاتیں اور نئی منگوالی جاتیں۔ پھر ایسا بھی ہوا کہ یہ فلمیں پی آئی اے کی پروازوں سے یہاں گوادر، جیونی، پسنی ایئرپورٹ پہنچنے لگیں۔ جب سڑکیں بن گئیں تو بسوں کے ذریعے بھی دو سے چار فلمیں آنے لگیں۔‘

یہ کہنا ہے بلوچستان کے ضلع گوادر کے رہائشی 56 سالہ صالح محمد کا، جو اب رکشہ چلاتے ہیں۔ البتہ گوادر کے واحد تاج محل ٹاکیز سنیما کی یادوں کی ریل اسی طرح ان کے ذہن میں چلنے لگتی ہے جیسے پردے پر کوئی پرانی فلم چل رہی ہو۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے صالح محمد نے بتایا کہ 1973 میں اداکار ندیم اور نشو کی فلم ’نادان‘ نے اس سنیما کو ایسا آباد کیا کہ پھر یہاں فلموں اور فلم بینوں کا رش تھم نہ سکا۔ یہ اپنے وقت کی سپر ہٹ فلم تھی اس کے بعد سدھیر اور ممتاز کی فلم ’جادو‘ ، ندیم اور دیبا کی فلم ’پرستش‘ نے بھی سنیما کو مقبول بنا ڈالا۔

انہوں نے 1976 میں یہاں پروجیکٹر پر کام شروع کیا۔ اس سنیما میں اردو، پنجابی، سندھی، پشتو اور انگریزی زبان کی فلمیں لگا کرتی تھیں۔ اسی سینما میں ایک فلم ’اللہ اکبر‘ جو سعودی عرب میں بنی تھی وہ بھی یہاں چلائی گئی، جس کی ڈبنگ اردو زبان میں اداکار محمد علی نے کی تھی۔

صالح کا کہنا تھا کہ جب ہال بھر جاتا تو اس کا مطلب تھا کہ اب ہاؤس فل ہے لیکن اگر کوئی بعد میں بھی آجاتا تو اسے واپس نہیں بھیجا جاتا تھا۔ پروجیکٹر روم اوپر تھا اگر رش بڑھ جاتا تو لوگوں کو اوپر بھی بٹھایا جاتا تھا۔ جب کہ خواتین کے لیے ایک جگہ مخصوص تھی۔ جہاں وہ بیٹھ کر فلم دیکھ سکتی تھیں۔ خواتین بہت شوق سے پاکستانی فلمیں دیکھنے آیا کرتی تھیں۔ انہیں یاد ہے ایک انگریزی فلم ’قلوپطرہ‘ آئی تھی۔ وہ بہت طویل فلم تھی جس کی 18 یا 20 ریلز تھیں جب کہ عام طور پر فلموں کی 12 سے 15 ریلیں ہوتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس فلم کے چلنے پر سنیما بھرا ہوا تھا تو ہمارا مینیجر جو اسماعیلی تھا، اس نے کہا کہ استاد ایک وقفے کے بعد دوبارہ ایک گھنٹے بعد وقفہ کرو۔ یوں وہ فلم اس بات سے مشہور ہوئی کہ گوادر میں ایسی فلم آئی جس میں تین انٹر ویل تھے۔ شروع میں فلم کا ٹکٹ 12 آنے تھا جب کہ سیٹیوں کا ڈھائی روپے اور گیلری کا پانچ روپے ہوتا تھا۔ پھر بعد میں ٹکٹ 10 روپے ہوگیا۔

صالح بتاتے ہیں کہ فلم کا کوئی سین یا ڈائیلاگ اچھا لگتا تو تماشائیوں کا سراہنے کا انداز بھی الگ ہوتا۔ اسکرین کے بالکل سامنے بیٹھنے والے ریز گاری (پانچ پیسہ، دس پیسہ، آٹھ آنے) پھینکا کرتے تھے۔
صالح بتاتے ہیں کہ فلم کا کوئی سین یا ڈائیلاگ اچھا لگتا تو تماشائیوں کا سراہنے کا انداز بھی الگ ہوتا۔ اسکرین کے بالکل سامنے بیٹھنے والے ریز گاری (پانچ پیسہ، دس پیسہ، آٹھ آنے) پھینکا کرتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ 1989 کی بات ہے۔ پاکستان کی پہلی سائنس فکشن فلم ’سر کٹا انسان‘ جب گوادر میں لگی تو سامنے گراؤنڈ میں فٹ بال میچ چل رہا تھا۔ وہاں سے کھلاڑی بھی آگئے۔ ایسے ایسے لوگ بھی وہ فلم دیکھنے آئے جنہوں نے فلم دیکھنا چھوڑ دی تھی کیوں کہ ان کے لیے یہ ایک نئی بات تھی کہ آخر ایسا کیا ہے اس فلم میں اور کیوں اس فلم کا نام سر کٹا انسان ہے؟

'گوادر کے مکین فلموں پر تبصرے کرتے تھے'

صالح بتاتے ہیں کہ فلم کا کوئی سین یا ڈائیلاگ اچھا لگتا تو تماشائیوں کا سراہنے کا انداز بھی الگ ہوتا۔ اسکرین کے بالکل سامنے بیٹھنے والے ریز گاری (پانچ پیسہ،10 پیسہ، آٹھ آنے) پھینکا کرتے تھے۔ خاص طور پر جب محمد علی کا کوئی جذباتی سین ہوتا وہ کوئی مکا مارتے یا وہ گانا گاتے کہ ایسا پیار کرنے والا، تو پھر تماشائی خوش ہوکر پیسے پھینکنے لگتے۔ اگلی صبح فلم پر گلی گلی، بازاروں میں تبصرے ہوتے کہ دیکھا محمد علی نے کیسا مارا۔ ارے سدھیر بھاگ گیا، سلطان راہی کی فائٹ دیکھی تم نے۔ سارا دن یہی باتیں ہوتی تھیں لوگوں کی آپس میں۔

'لوگوں کی یادیں اس جگہ سے جڑی ہیں'

شاہ عالم جو گوادر کے رہائشی ہیں، ان کے مطابق انہوں نے اس سنیما میں چھ سے سات فلمیں دیکھ رکھی ہیں۔ لیکن جب 2000 کے بعد پاکستانی فلمیں زوال پذیر ہوئیں اس سے قبل ہی ا ن کی دلچسپی ختم ہوچکی تھی۔ پہلے پاکستانی فلمیں اور اداکاروں کا معیار ایسا تھا کہ اداکار کا نام سن کر اندازہ ہوجاتا تھا کہ فلم سپر ہٹ ہوگی۔ وہ اسی وقت فیصلہ کرتے اور ٹکٹ خرید لیا کرتے۔

شاہ عالم جو گوادر کے رہائشی ہیں، ان کے مطابق انہوں نے اس سنیما میں چھ سے سات فلمیں دیکھ رکھی ہیں۔
شاہ عالم جو گوادر کے رہائشی ہیں، ان کے مطابق انہوں نے اس سنیما میں چھ سے سات فلمیں دیکھ رکھی ہیں۔

صالح محمد کے مطابق وہ جب اس سنیما کو دیکھتے ہیں تو ان کا دل روتا ہے۔ ان کی بہت اچھی یادیں وابستہ ہیں۔ ابھی بھی ہمارے کچھ دوست مسقط سے یہاں آتے ہیں۔ جنہوں نے اپنی پوری زندگی یہاں گزاری۔ پانچ چھ سال بعد جب وہ یہاں آئیں تو یہ ویران سنیما ہم کھولتے ہیں۔ وہ وہاں جاتے ہیں جہاں پردے پر فلم چلتی تھی۔ وہیں بیٹھ کر چائے پیتے ہیں اور پرانی یادیں تازہ اور باتیں یاد کرتے ہیں۔

صالح کا کہنا تھا کہ وہ انہیں کہتے ہیں کہ چلو کہیں پکنک پر چلیں، کہیں پہاڑ پر چلتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ نہیں صالح یہاں ہماری یادیں بسی ہیں، یہی بیٹھیں گے۔

گوادر میں فلم کی تشہیر کیسے ہوتی تھی?

صالح محمد کے مطابق جب فلم چلتی تھی تو وقفے میں اگلے روز جو بھی فلم چلنی ہوتی اس کا کوئی ایک ڈائیلاگ، فائیٹ کا سین یا گانا ٹریلر کے طور پر چلا دیا جاتا تھا۔ ساتھ ہی اس فلم کے پوسٹر بازاروں میں دکانوں پر بھی لگادیے جاتے تھے۔ اس وقت ایک آدمی اس کام کے لیے مخصوص تھا کہ وہ پوسٹر بنائے، لکھے اور بازاروں میں جاکر لگائے۔

ان کا کہنا تھا کہ مرد کام پر جاتے تو اپنے گھر کی خواتین کو کہتے کہ آج معلوم تو کرو کون سی فلم لگنی ہے؟ پھر عورتیں بازار خریداری کرنے آتیں تو دکاندار سے پوچھتیں کہ یہ جو پوسٹر لگا ہے اس فلم کا نام کیا ہے؟ کون اداکار ہے اس میں؟ پھر وہ اپنے محلوں میں گھروالوں کو بتاتیں تھیں۔

صالح محمد اداکار جاوید شیخ کے پرستار ہیں جب کہ گوادر کے رہنے والوں کے اس وقت کے سب سے زیادہ پسندیدہ اداکار محمد علی تھے۔ اس کے بعد ندیم، شاہد، وحید مراد لوگوں کو پسند تھے جب کہ جو مزدور طبقہ تھا ان کو سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی بہت پسند تھے۔ خواتین اداکارہ شبنم کی مداح تھیں۔ شبنم کی جب بھی فلم لگتی خواتین سب سے زیادہ سنیما میں نظر آتیں۔

صالح محمد کے مطابق جب فلم چلتی تھی تو وقفے میں اگلے روز جو بھی فلم چلنی ہوتی اس کا کوئی ایک ڈائیلاگ، فائیٹ کا سین یا گانا ٹریلر کے طور پر چلا دیا جاتا تھا۔
صالح محمد کے مطابق جب فلم چلتی تھی تو وقفے میں اگلے روز جو بھی فلم چلنی ہوتی اس کا کوئی ایک ڈائیلاگ، فائیٹ کا سین یا گانا ٹریلر کے طور پر چلا دیا جاتا تھا۔

گوادر کے رہائشی علی محمد نے یوں تو تعلیم حاصل نہیں کی لیکن انہوں نے 20 برس فلم کے پوسٹر لکھنے اور لگانے کا کام کیا۔

علی کے مطابق انہیں لکھنا نہیں آتا تھا، سامنے تحریر دیکھ کر لکھ دیتے تھے۔ پھر اس کام میں ماہر ہوگئے کیوں کہ یہ ان کا شوق تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے آخری پوسٹر اداکار شان کی فلم ’گلفام‘ کا بنایا تھا۔ بقول ان کے اس کام میں پیسہ بالکل نہیں تھا جو کیا اپنے شوق سے کیا۔ ایک مہینے میں ان کو 120 روپے تنخواہ ملا کرتی تھی۔ جب یہ کام چھوڑا تب 500 روپے تنخواہ تھی۔ ان کے شوق اور لگن کو دیکھ کر مینیجر نے ان پر چھوڑ رکھا تھا کہ اگر کوئی فلم بہت اچھی چلی ہے تو وہ اس کا پوسٹر دوبارہ لگا دیں تاکہ وہ فلم دوبارہ چل جائے۔ کیوں کہ یہاں جمعے کو چھٹی ہوتی ہے تو جمعرات کی رات سے ہی سنیما بھر جاتا تھا۔ سارے مچھیرے، مزدور آجاتے تھے۔

صالح کا کہنا تھا کہ وہ انہیں کہتے کہ چلو کہیں پکنک پر چلیں، کہیں پہاڑ پر چلتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ نہیں صالح یہاں ہماری یادیں بسی ہیں، یہی بیٹھیں گے۔
صالح کا کہنا تھا کہ وہ انہیں کہتے کہ چلو کہیں پکنک پر چلیں، کہیں پہاڑ پر چلتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ نہیں صالح یہاں ہماری یادیں بسی ہیں، یہی بیٹھیں گے۔

سنیما بند ہونے کی وجہ کیا بنی؟

علی کا کہنا تھا کہ 2006 میں یہ تاج محل ٹاکیز بند ہوگیا کیوں کہ سنیما نقصان میں جارہا تھا۔ وی سی آر کا دور آچکا تھا۔ اب لوگوں کی تفریح تک رسائی آسان تھی۔ پھر آہستہ آہستہ یہاں آنے والوں کی دلچسپی ختم ہوتی گئی کیوں کہ ہر دکان، ہوٹل پر ٹی وی، ڈش اور وی سی آر پر فلمیں چلنے لگیں اور پاکستانی فلموں کا بھی زوال شروع ہوچکا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ کب تک لوگوں کو پرانی فلمیں بار بار دکھاتے جب کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اب سنیما بحال ہونا چاہیے۔ اب بندرگاہ بن گئی ہے ترقی ہورہی ہے اب مسافر اور مزدور پہلے سے کہیں زیادہ ہیں۔ لانچیں آتی ہیں، ماہی گیر جو شکار سے اتنے دن بعدآتے ہیں ان کو تو فلم دیکھنی ہے۔ مقامی افراد سے زیادہ ان کی دلچسپی ہوتی ہے فلم دیکھنے میں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ اگر یہ سنیما دوبارہ کھل جائے تو بہت سے افراد کی سستی تفریح کا ذریعہ پھر سے بحال ہو جائے گا۔

XS
SM
MD
LG