رسائی کے لنکس

بشار الاسدکا دورہ چین:کیا شام اپنی سفارتی تنہائی ختم کرنے میں کامیاب ہو سکے گا؟


چین پہنچنے پر شام کے صدر اور خاتون اول اسما کا استقبال
چین پہنچنے پر شام کے صدر اور خاتون اول اسما کا استقبال

شام کے صدر بشار الاسد چین کے مشرقی شہر ہانگ چو پہنچ گئے ہیں۔ جو دو ہزار چار کے بعد چین کا ان کا پہلا دورہ ،اور سیاسی مبصرین کے بقول مغربی ملکوں کی تعزیرات کے تحت ایک عشرے سے زیادہ کی سفارتی تنہائی دور کرنے کی تازہ ترین کوشش ہے۔

صدر اسد چینی ایر لائن کے ایک طیارے میں ایسے میں اپنی منزل پر پہنچے جب ماحول شدید دھند اور کہر میں لپٹا ہوا تھا اور چین کے سرکاری میڈیا کا کہنا ہے کہ اس نے ماحول کی پراسراریت میں اضافہ کردیا کیونکہ شامی لیڈر دو ہزار گیارہ میں شروع ہونے والی اس خانہ جنگی کے بعد کبھی کبھار ہی بیرونی دوروں پر جاتے ہیں جس میں پانچ لاکھ سے زیادہ لوگ مارے گئے۔

شام میں ایک جلتی ہوئی کار کے گرد لوگ جمع ہیں جس میں گولہ لگنے سے آگ بھڑک اٹھی
شام میں ایک جلتی ہوئی کار کے گرد لوگ جمع ہیں جس میں گولہ لگنے سے آگ بھڑک اٹھی

وہ ہفتے کے روز ایک درجن سے زیادہ غیر ملکی عمائدین کے ہمراہ ایشئین گیمز کی افتتاحی تقریب میں شریک ہونگے۔ جمعے کے روز وہ چینی صدر شی جن پنگ سے ملیں گے۔ علاقائی رہنماؤں کے اجتماع میں ان کا چینی صدر کے ہمراہ دیکھا جانا، عالمی اسٹیج پر واپسی کی صدر اسد کی کوششوں کو مزید بڑھاوا دے گا۔

شام دو ہزار بائیس میں چین کے بیلٹ اینڈ روڈ پروگرام میں شامل ہوا تھا اور مئی میں ان ہی ملکوں نے عرب لیگ میں اس کا خیر مقدم کیا جنہوں نے اسےگروپ سے الگ کرنے کی وکالت کی تھی۔

عالمی سیاست پر نظر رکھنے والے ماہرین اس حوالے سے دورے کو بہت اہمیت دیتے ہیں کہ ایسے میں جبکہ جنگ سے تباہ حال ملک شام کو اپنی تعمیر نو کے لئے مالی مدد کی شدید ضرورت ہے اور عرب مملکتوں کی جانب سے بھی اس سلسلے میں کوئی زیادہ حوصلہ افزا پیش رفت نہیں ہوئی ہے، کیا چین یا کہیں سے بھی شام میں آنے والی سرمایہ کاری کو امریکی تعزیرات کی زد میں آنے کا خطرہ ہے اور کیا چینی سرمایہ کار یہ خطرہ مول لینے کے لئے تیار ہونگے۔

سنگا پور کے لی کوان یو اسکول آف پبلک پالیسی کے الفریڈ یو کہتے ہیں کہ اپنی تیسری مدت صدارت میں شی جن پنگ امریکہ کو کھل کر چیلنج کرنا چاہتے ہیں اس لئے ان کے خیال میں یہ کوئی حیران بات نہیں ہےکہ وہ عالمی قواعد کو نظر انداز کرتے ہوئے ، اسد جیسے رہنما کی میزبانی کریں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سے دنیا میں چین کی اہمیت کم ہوگی۔ لیکن انہیں اسکی کوئی پرواہ نہیں ہے۔

اور اسی پس منظر میں اگر دیکھا جائے تو جن ممالک پر امریکہ اور مغربی ملکوں کی جانب سے تعزیرات عائد ہیں، خواہ وہ ایران ہو یا روس، شمالی کوریا یا کوئی اور ملک ،چین نےاس سے قربت حاصل کی ہے۔ اور وہ عالمی بساط سیاست پر ایک متوازی قوت کی حیثیت سے ابھرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

شام میں 2020 کے انتخابات میں پولنگ کا ایک منظر، فائل فوٹو
شام میں 2020 کے انتخابات میں پولنگ کا ایک منظر، فائل فوٹو

واشنگٹن میں قائم ادارے پولی ٹیکٹ کے چیف اینیلسٹ عارف انصار کا کہنا ہےکہ ہر چند کہ اس بات کی تردید کی جاتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس وقت دنیا کو کم و بیش وہی صورت حال درپیش ہے جو سرد جنگ سے پہلے کی دنیا میں تھی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسوقت دنیا میں ایک سپر پاور کشمکش جاری ہے جس کے مختلف پہلو ہیں۔ اور جن میں سب سے اہم پہلو معیشت ہے۔

اس میں بہت سی اقتصادی راہداریاں بن رہی ہیں۔ سی پیک پہلے ہی سے موجود تھا اور اب ایک نئے کوریڈور انڈیا۔مڈل ایسٹ۔یور پ کوریڈور یا امیک کا منصوبہ سامنے آیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہر چند کہ امریکہ اور چین دونوں جانب سے یہ کہا جارہا ہے کہ یہ سب کچھ صحتمند مسابقت ہے۔ لیکن ملکوں کے قومی اور اقتصادی مفادات اس سے وابستہ ہیں۔مسابقت سے دنیا کے ان ملکوں کے لئے بہتری کی توقع رکھی جانی چاہئیے جن کے وسائل محدود ہیں اور جن پر غربت ڈیرے ڈالے ہوئے ہے۔

تجزیہ کار عارف انصار یہ بھی سمجھتے ہیں کہ شام کو اسوقت مالی مدد کی شدید ضرورت ہے، وہ سی پیک میں شامل ہے اور صدر اسد کو شام کی خانہ جنگی کے دوران چین کی اس لحاظ سے حمایت بھی حاصل رہی ہے کہ اس نے اقوام متحدہ میں اسد حکومت کی مذمت کی قراداوں کو آدھی درجن سے زیادہ بار ویٹو کیاتھا۔

شام پراسوقت امریکہ اور مغرب کی تعزیرات عائد ہیں اس لئے چین کے ساتھ اس کا فطری اتحاد بنتا ہے۔ اور صدر اسد اسی امید کے ساتھ وہاں گئے ہیں کہ نہ صرف اپنی سفارتی تنہائی دور کرنے کی اپنی مہم میں ایک قدم اور آگے بڑھ جائیں بلکہ کچھ سرمایہ کاری بھی لا سکیں۔

دو ہزار آٹھ اور دو ہزار نو میں چین کی سرکاری انرجی فرموں نے شام میں مشترکہ طور پر تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی تھی۔

لیکن تجزیہ کاروں کو شبہ ہے کہ اسوقت شام کی سنگین مالی حالت اور سیکیورٹی کی خراب صورت حال کےپیش نظر چینی کمپنیاں وہاں سرمایہ کاری کے بارے میں بھی غور کر رہی ہونگی۔

شام اپنی سفارتی تنہائی کو دور کرنے کے لئے مزید ملکوں سے تعلقات بڑھانے کے لئے کوشاں ہے، لیکن یہ ایک بہت بڑا سوال ہے کہ آیا امریکہ اور مغرب کی تعزیرات،ملک کی خراب اور غیر یقینی صورت حال کے پیش نظر ان کی کوششوں کے کوئی ٹھوس نتائج بر آمد ہو سکیں گے۔

شام کی خانہ جنگی

اب سے بارہ برس قبل عرب اسپرنگ کے دور میں یہ خانہ جنگی شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خلاف مظاہروں سے شروع ہوئی تھی۔

جلد ہی اس احتجاج نے ایک انقلابی نوعیت اختیار کر لی اور حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کیا جانے لگا۔حکومت کی جانب سے پر تشدد جواب کے نتیجے میں یہ شورش ایک باقاعدہ جنگ میں تبدیل ہوگئی۔

اس جنگ میں ہر چند کہ حکومت اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب ہو گئی لیکن لاکھوں لوگ مارے گئے اور ملک کی کوئی آدھی آبادی بے گھر ہو گئی۔ لاکھوں لوگوں کو وطن چھوڑنا پڑا ۔

ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق ملک کی موجودہ آبادی کے نوے فیصد افرادخط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ اور ملکی معیشت تباہ ہو چکی ہے۔

(اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات ایسو سی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں۔)

فورم

XS
SM
MD
LG