سوئیڈن میں حکام نے 'وکی لیکس' کے بانی جولین اسانج کے خلاف جنسی بدسلوکی کےالزام میں جاری تحقیقات ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
سوئیڈش حکام کے مطابق ملزم پر فردِ جرم عائد کرنے کی قانونی مدت پوری ہونے اور تفتیش میں پیش رفت نہ ہونے کے سبب اسانج کے خلاف تحقیقات ختم کی جارہی ہیں۔
لیکن حکام نے واضح کیا ہے کہ اسانج پر ایک خاتون سے زیادتی کا الزام بدستور برقرار ہے جس کی تحقیقات کے لیے سوئیڈش استغاثہ اسانج تک رسائی کے لیے کوششیں جاری رکھے گا۔ سوئیڈن کے قانون کے مطابق مذکورہ الزام میں تفتیش 2020ء تک جاری رہ سکتی ہے۔
جولین اسانج پر 2010ء میں ان کے دورۂ سوئیڈن کے دوران دو خواتین نے زیادتی اور جنسی بدسلوکی کا نشانہ بنانے کے الزامات عائد کیے تھے جن کی بنیاد پر سوئیڈن کی حکو مت نے اسانج کے وارنٹ گرفتاری جاری کر رکھے ہیں۔
اسانج گزشتہ تین سال سے لندن میں واقع ایکواڈور کے سفارت خانے میں پناہ گزین ہیں جہاں انہوں نے برطانوی حکام کے ہاتھوں اپنی گرفتاری اور سوئیڈن کو حوالگی سے بچنے کے لیے پناہ لی تھی۔
اسانج کا موقف ہے کہ ان کے خلاف مقدمہ من گھڑت ہے اور سوئیڈش حکومت انہیں امریکہ کی ایما پر انتقامی کارروائی کا نشانہ بنا رہی ہے۔
اسانج کے قائم کردہ ادارے 'وکی لیکس' نے پانچ سال قبل امریکی حکومت کی خفیہ دستاویزات انٹرنیٹ پر جاری کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا جو تاحال وقفے وقفے سے جاری ہے۔
ان دستاویزات کی اشاعت پر امریکہ خاصا برہم ہے اور امریکی حکام کا موقف رہا ہے کہ اس عمل سے امریکی مفادات اور سکیورٹی کو شدید خطرات لاحق ہوئے ہیں اور امریکی شہریوں کی زندگیاں خطرات سے دوچار ہوئی ہیں۔
دریں اثنا برطانوی حکومت نے کہا ہے کہ وہ جولین اسانج کو لندن میں قائم اپنے سفارت خانے میں پناہ دینے کے معاملے پر ایکواڈور کی حکومت سے باقاعدہ احتجاج کرے گا۔
جمعرات کو جاری کیے جانے والے ایک بیان میں برطانیہ کے دفترِ خارجہ کے وزیر ہیوگو سوائر نے کہا ہے کہ ایکواڈور کی حکومت نے تین سال قبل جولین اسانج کو پناہ دے کر انصاف کی فراہمی کا راستہ روکا تھا جس کا اسے احساس ہونا چاہیے۔
برطانوی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اسانج کے فرار کو روکنے کے لیے ایکواڈور کے سفارت خانے کی پولیس کے ذریعے نگرانی پر ایک کروڑ ڈالر سے زائد رقم خرچ کرچکی ہے جس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔