اسپین کی پولیس کا کہنا ہے کہ جمعرات کو بارسلونا میں راہگیروں پر گاڑی چڑھا کر مہلک حملہ کرنے والا مشتبہ ڈرائیور شاید اب بھی زندہ ہے اور مفرور ہے۔ قبل ازیں یہ اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ مشتبہ ڈرائیور پولیس کے ساتھ جھڑپ میں مارا گیا ہے۔
پولیس کا اب کہنا ہے کہ وہ 22 سالہ مراکش نژاد یونس ابو یعقوب کو تلاش کر رہی ہے جو ممکنہ طور پر اس حملے کا منصوبہ ساز ہو سکتا ہے۔
اس سے پہلے اسپین کے میڈیا کا کہنا تھا کہ جمعرات کو ہونے والے ایک دہشت گرد حملے میں ملوث اہم مشتبہ حملہ آور موسیٰ اوکبر پولیس کے ساتھ جھڑپ میں مارا گیا ہے۔
جمعے کو سامنے آنے والی اطلاعات کے مطابق 17 سالہ اوکبر پولیس کے ہاتھوں مارے جانے والے ان پانچ مشتبہ افراد کی فہرست میں شامل ہے جنہیں بارسلونا میں ہوئے حملے کے گھنٹوں بعد ساحلی شہر کیمبرلز میں ہلاک کیا گیا۔
اس حملے میں کم از کم 14 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے۔
اسپین کے سول گارڈ کے حکام نے امریکی خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ اوکبر مبینہ طور پر اس گاڑی کا ڈرائیور تھا جو حملے کے لیے استعمال ہوئی اور جس نے متعدد لوگوں کو کچل دیا تھا۔
حملے کے بعد ڈرائیور جائے وقوع سے فرار ہو گیا تھا لیکن بعد ازاں کیمبرلز میں ان مشتبہ افراد نے ایک اور گاڑی پیدل چلنے والوں پر چڑھا دی جس سے ایک خاتون ہلاک اور چھ دیگر افراد زخمی ہو گئے تھے۔
حملہ آور اس گاڑی سے باہر نکلے اور وہاں موجود پولیس پر فائرنگ شروع کر دی۔ ان مشتبہ حملہ آوروں نے بظاہر خودکش جیکٹس پہنچ رکھی تھیں لیکن یہ جعلی ثابت ہوئیں۔
اوکبر کے علاوہ پولیس نے مارے جانے والے دیگر دو مشتبہ افراد کی شناخت 18 سالہ سعید اللہ اور 24 سالہ محمد ہچامی کے نام سے کی ہے۔ پولیس کا کہنا تھا کہ وہ 22 سالہ یونس ابویعقوب سمیت دیگر مشتبہ افراد کی تلاش میں مصروف ہیں۔
اوکبر نے مشتبہ طور پر اپنے بھائی ادریس کی شناخت ظاہر کرتے ہوئے دو گاڑیاں کرائے پر حاصل کیں اور انھیں حملے کے لیے استعمال کیا۔
ادریس کو جمعرات کو بارسلونا سے 100 کلومیٹر شمال میں واقع ریپول کے علاقے سے گرفتار کیا گیا تھا۔
اسپین کے شاہی خاندان نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں انھوں نے حملے سے متاثر ہونے والوں سے ہمدردی کا اظہار کیا۔
بیان میں کہا گیا کہ "یہ قاتل تھے، جرائم پیشہ عناصر کبھی بھی ہمیں خوفزدہ نہیں کر سکیں گے۔"
شدت پسند تنظیم داعش نے بارسلونا حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
اسپین کے وزیراعظم ماریانو راہوئے نے اس حملے کو "جہادی دہشت گردی" قرار دیا۔
صحافیوں سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ آج ہم جیسے آزاد معاشروں کے لیے اصولی ترجیح بن چکی ہیں۔ ان کے بقول یہ عالمی خطرہ ہے اور اس کے لیے ردعمل بھی بین الاقوامی ہونا چاہیے۔