رسائی کے لنکس

الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل کے خلاف اپیل: لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ، الیکشن کمیشن کا نوٹی فکیشن معطل


  • سپریم کورٹ نے حکم میں کہا ہے کہ چیف جسٹس لاہور ہائی کی تقرری کا عمل مکمل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن فوری مشاورت کرے۔
  • عدالت نے کہا کہ بامعنی مشاورت سے الیکشن کمیشن اور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ تنازع حل کر سکتے ہیں۔
  • الیکشن کمیشن نے الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل کے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا۔
  • الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل الیکش کمیشن کا اختیار ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کا ٹربیونلز کی تشکیل کا فیصلہ قانون کے خلاف ہے: الیکشن کمیشن کا مؤقف

ویب ڈیسک سپریم کورٹ نے الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل کے فیصلے کے خلاف اپیل پر لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ اور الیکشن کمیشن کا نوٹی فکیشن معطل کر دیا ہے۔ عدالت نے حکم دیا ہے کہ الیکشن کمیشن عدالتِ عالیہ لاہور کے چیف جسٹس سے مشاورت کرے۔

وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس عقیل عباسی پر مشتمل پانچ رکنی بینچ نے سماعت کی۔

الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل کے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

وفاقی حکومت نے رواں برس مئی میں ایک صدارتی آرڈیننس جاری کیا تھا جس کے تحت الیکشن کمیشن کو نئے اور اضافی ٹربیونل تشکیل دینے کا اختیار دیا گیا تھا۔ لاہور ہائی کورٹ نے اس آرڈیننس کے خلاف درخواست کو قبول کرلیا تھا جس کے بعد 12 جون کو آٹھ ٹربیونلز کی تشکیل کے احکامات جاری کیے تھے۔

الیکشن کمیشن نے ان ٹربیونلز کی تشکیل کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی جس میں مؤقف اپنایا تھا کہ الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل الیکش کمیشن کا اختیار ہے اور اس ضمن میں لاہور ہائی کورٹ کا ٹربیونلز کی تشکیل کا فیصلہ قانون کے خلاف ہے۔

الیکشن کمیشن کا مؤقف ہے کہ ہائی کورٹ الیکشن کمیشن کے اختیارات استعمال نہیں کر سکتا۔ لہٰذا سپریم کورٹ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے۔

بدھ کو جب کیس کی سماعت شروع ہوئی تو پی ٹی آئی کے رہنما سلمان اکرم راجا کے وکیل حامد خان نے التوا کی درخواست دائر کی جب کہ وکیل نیاز اللہ نیازی نے بینچ پر اعتراض اٹھایا۔

نیاز اللہ نیازی نے کہا کہ ان کے مؤکل کا اعتراض ہے کہ چیف جسٹس بینچ کا حصہ نہ ہوں۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا اعتراض سن لیا، آپ تشریف رکھیں۔ یہ الیکشن کمشین اور چیف جسٹس کے درمیان معاملہ ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کسی پرائیویٹ شخص کی اس معاملے میں اتنی دلچسپی کیوں ہے؟ اسی دوران جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن اور چیف جسٹس فیصلہ نہ کریں تو متاثر عام آدمی ہی ہو گا۔

سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر مہمند نے دلائل دیتے ہوئے استدعا کی کہ ہائی کورٹ کا نوٹی فکیشن اور فیصلہ معطل کیا جائے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن ہائی کورٹ کا حکم نہ مانے تو توہینِ عدالت لگے گی۔ ہائی کورٹ کو نوٹی فکیشن کے بجائے توہینِ عدالت کا نوٹس کرنا چاہیے تھا۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے ٹربیونلز کی تشکیل کا نوٹی فیکیشن خود جاری کرنا کیا آئینی ہے؟

جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ الیکشن کمیشن فیصلے پر عمل نہ کرے تو عدالت اور کیا کرے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں چیف جسٹس ہائی کورٹ بھی عدالتی فیصلے کی پابند ہوں گی۔ اس طرح تو چیف جسٹس پر بھی توہینِ عدالت لگ جائے گی۔

جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ الیکشن کمیشن پہلے ہائی کورٹ کے حکم پر عمل کرے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایسا بھی ممکن ہے کہ الیکشن کمیشن اپیل سے مشروط نوٹی فکیشن جاری کرے۔

اس دوران وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ خود کو عدالت کے ہاتھ میں چھوڑتا ہوں جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ خود کو عدالت کے ہاتھ میں ہائی کورٹ میں چھوڑتے تو مسئلہ نہ ہوتا، پتہ نہیں کیوں انا کا مسئلہ بنا دیا جاتا ہے۔

دورانِ سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ اس نکتے پر ججز کو بھی مشاورت کی ضرورت ہے۔ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ مشاورت کے لیے اگر عدالت آدھا گھنٹہ لے تو پارلیمانی کمیٹی اجلاس جلدی بلوانے کا کہتا ہوں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی پر کوئی بات نہیں کریں گے۔ جس بھی ادارے کے پاس جو بھی اختیار ہے اس کا مکمل احترام کرتے ہیں۔

سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اگر وہ چیف جسٹس ہائی کورٹ ہوتے تو وہی کرتے جو لاہور ہائی کورٹ نے کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت کا فیصلہ ایک آئینی ادارے کے حق میں اور دوسرے کے خلاف آئے گا۔ ایسا نہیں چاہتے کہ کسی آئینی ادارے کے خلاف فیصلہ دیں۔

بعد ازاں عدالت نے آئندہ سماعت تک الیکشن ٹربیونلز کے قیام کا فیصلہ معطل کر دیا۔ ساتھ ہی عدالت نے الیکشن کمیشن کے جاری کردہ نوٹی فکیشن بھی معطل کر دیے۔

سپریم کورٹ نے حکم میں کہا ہے کہ الیکشن کمیشن اور چیف جسٹس ہائی کورٹ دونوں آئینی عہدے دار ہیں۔ جیسے ہی چیف جسٹس لاہور ہائی کا تقرر مکمل ہو، الیکشن کمیشن فوری ان سے مشاورت کرے۔

عدالت نے کہا کہ بامعنی مشاورت سے دونوں یہ تنازع حل کر سکتے ہیں۔

عدات نے کیس کی مزید سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG