رسائی کے لنکس

برطانیہ میں انتخابات کے لیے ووٹنگ، ٹرن آؤٹ کم رہنے کا امکان


  • برطانیہ میں پارلیمان کی 650 نشستوں کے لیے ووٹنگ شروع ہو گئی ہے۔
  • پولنگ سے قبل آنے والے رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق وزیرِ اعظم رشی سونک کی 14 برس سے برسرِ اقتدار جماعت کنزرویٹو پارٹی کی حکمرانی ختم ہو سکتی ہے۔
  • وزیرِ اعظم رشی سونک نے قبل از وقت انتخابات کا اعلان کیا تھا۔
  • رائے عامہ کے جائزوں سے اندازہ ہو رہا ہے کہ حزبِ اختلاف کی جماعت کو واضح اکثریت مل سکتی ہے۔

برطانیہ میں انتخابات کے لیے جمعرات کو پولنگ کا آغاز ہو گیا ہے۔ پارلیمان کی 650 نشستوں پر الیکشن کے لیے 40 ہزار سے زائد پولنگ اسٹیشنز بنائے گئے ہیں۔

انتخابات کے لیے صبح سات بجے (پاکستانی وقت کے مطابق دن 11 بجے) ووٹنگ کا آغاز ہوا جو رات 10 بجے (پاکستانی وقت کے مطابق رات دو بجے) تک بلاتعطل جاری رہے گا۔

بیشتر پولنگ اسٹیشن گرجا گھروں، کمیونٹی سینٹرز اور اسکولوں میں بنائے گئے ہیں جب کہ بعض پولنگ اسٹیشنز غیر روایتی مقامات جیسے شراب خانوں میں بھی قائم کیے گئے ہیں۔

پولنگ سے قبل آنے والے رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق وزیرِ اعظم رشی سونک کی 14 برس سے برسرِ اقتدار جماعت کنزرویٹو پارٹی کی حکمرانی ختم ہو سکتی ہے جب کہ لیبر پارٹی کے رہنما کیئر اسٹارمر کے وزیرِ اعظم بننے کے امکانات ہیں۔

واضح رہے کہ برطانیہ میں الیکشن چھ ماہ بعد ہونا تھے۔ لیکن وزیرِ اعظم رشی سونک نے غیر متوقع طور پر قبل از وقت الیکشن کے انعقاد کا اعلان کیا۔

برطانیہ میں گزشتہ انتخابات 2019 میں ہوئے تھے جس میں بورس جانسن کی قیادت میں کنزرویٹو پارٹی نے 650 کے ایوان میں سے 365 نشستوں کے ساتھ واضح برتری حاصل کی تھی۔

رائے عامہ کے جائزے کیا کہتے ہیں؟

رائے عامہ کے جائزوں میں سامنے آیا ہے کہ برطانیہ میں الیکشن سے قبل رائے دہندگان کو کنزرویٹو پارٹی میں اندرونی اختلافات اور پھر گزشتہ آٹھ سال میں پانچ وزرائے اعظم کی تبدیلی جیسے معاملات پر تشویش ہے۔

مختلف سروے یہ واضح کر رہے ہیں کہ برطانوی شہری تبدیلی کے خواہش مند ہیں اور لیبر پارٹی نے انتخابی مہم کے دوران تبدیلی کا نعرہ بھی لگایا ہے۔

لیبر پارٹی کے رہنما کیئر اسٹارمر نے منگل کو ایک بیان میں کہا تھا کہ برطانیہ اس وقت ایک نئے باب کا آغاز کر سکتا ہے اور تبدیلی اسی صورت میں آئے گی جب لیبر پارٹی کو ووٹ دیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ برطانوی عوام کنزرویٹو پارٹی کی مزید پانچ برس حکمرانی برداشت نہیں کر سکتے۔

دوسری جانب رشی سونک اپنی جماعت کنزرویٹو پارٹی کی کامیابی کے دعوے کرتے نظر نہیں آ رہے ہیں اور وہ وہ لیبر پارٹی کے اقتدار میں آنے کی صورت میں خطرات سے خبردار کرتے رہے ہیں۔

رشی سونک نے ایک حالیہ بیان میں کہا تھا کہ لیبر پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو وہ ٹیکسوں میں اضافہ کرے گی اور معاشی بحالی میں رکاوٹ بنے گی۔ یہی نہیں لیبر پارٹی کے اقتدار میں عالمی تناؤ کے دوران برطانیہ کمزور ہو جائے گا۔

دوسری جانب لیبر پارٹی نے رشی سونک کے ان الزامات کی تردید کی ہے۔

رائے عامہ کے جائزے یہ اشارہ بھی دے رہے ہیں کہ انتخابات میں ووٹنگ کی شرح کم ہو سکتی ہے۔ البتہ لیبر پارٹی کو پارلیمان میں واضح اکثریت ملنے کا امکان ہے۔

بعض جائزوں میں یہ بھی اشارے مل رہے ہیں کہ لیبر پارٹی کو سابق وزرائے اعظم ٹونی بلیئر اور مارگریٹ تھیچر کے زمانے میں ملنے والی نشستوں سے بھی زیادہ سیٹیں مل سکتی ہیں۔ لیکن اب بھی ووٹرز کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی موجود ہے جس نے یہ فیصلہ نہیں کیا کہ وہ کسے ووٹ دیں گے۔

خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق وزیرِ اعظم رشی سونک کی وزارتِ عظمیٰ کے گزشتہ دو برس میں ہونے والے اقدامات سے رائے عامہ کے جائزے ان کے حق میں نہیں رہے۔

اس رپورٹ میں شامل معلومات خبر رساں اداروں ’رائٹرز‘ اور ’اے ایف پی‘ سے لی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG