پاکستان کے صوبہ پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کے مقدمہ قتل میں موت کی سزا پانے والے مجرم ممتاز قادری نے اپنی سزا کے خلاف عدالت عظمٰی میں اپیل دائر کر رکھی ہے، جس کے سماعت منگل کو دوسرے روز بھی ہوئی۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ اس مقدمے کی سماعت کر رہا ہے۔ سماعت کے دوران بینچ میں شامل جج صاحبان نے پوچھا کہ کیا کسی فرد کو توہین مذہب کے مرتکب کسی شخص کو سزا دینے کا اختیار حاصل ہے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ اگر لوگ توہین مذہب کے مرتکب افراد کو خود ہی سزائیں دینا شروع کر دیں تو اس سے انتشار پھیل جائے گا۔
سماعت کے دوران عدالت کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ جب افراد نے ذاتی عناد کی بنا پر دوسروں پر توہین مذہب کا الزام عائد کیا ہو۔ انہوں نے ممتاز قادری کے وکلاء سے یہ بھی پوچھا کہ کیا مجرم نے سابق گورنر سلمان تاثیر کے خلاف حکومت سے رجوع کیا تھا یا نہیں۔
پیر کو درخواست کی سماعت کے دوران جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا تھا کہ اس کیس میں مجرم کی طرف سے کوئی ایسا ثبوت پیش نہیں کیا گیا، جس سے ثابت ہو کہ سلمان تاثیر توہین مذہب کے مرتکب ہوئے تھے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ اب تک جو شواہد پیش کیے گئے ہیں، اُن سے صرف یہ ہی ظاہر ہوتا ہے کہ سلمان تاثیر نے موجودہ قوانین میں نقائص کی نشاندہی کی تھی، جو توہین مذہب کے زمرے میں نہیں آتی۔
یاد رہے کہ اس وقت کے گورنر سلمان تاثیر نے اپنی اہلیہ اور صاحبزادی کے ہمراہ توہین مذہب کے ایک کیس میں موت کی سزا پانے والی مسیحی خاتون آسیہ بی بی سے جیل میں ملاقات کی تھی اور کہا تھا کہ وہ صدر پاکستان سے ان کی سزا معاف کرنے کی درخواست کریں گے۔
انہوں نے ملک میں توہین مذہب کے قوانین میں تبدیلی کا بھی مطالبہ کیا تھا جنہیں ان کے بقول ذاتی مقاصد کے لیے غلط انداز میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ممتاز قادری سلمان تاثیر کے سرکاری محافظوں کی ٹیم میں شامل تھا ۔ ممتاز قادری نے اُس وقت کے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو جنوری 2011ء میں اسلام آباد کی کوہسار مارکیٹ کے قریب گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
ممتاز قادری کو فوری طور پر گرفتار کر لیا گیا تھا اور اُس نے مجسٹریٹ کے سامنے اپنے اعترافی بیان میں کہا تھا کہ سلمان تاثیر نے توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کرنے کی حمایت کی تھی اور اسی بنا پر اُس نے اُن کو قتل کیا۔
اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے 2011ء میں ممتاز قادری کو دو بار سزائے موت اور جرمانے کی سزا سنائی تھی۔
ممتاز قادری نے اس سزا کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی جس پر رواں سال مارچ میں عدالت عالیہ نے انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت ممتاز قادری کو سنائی گئی سزائے موت کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔تاہم فوجداری قانون کی دفعہ 302 کے تحت اُس کی سزائے موت کو برقرار رکھا گیا۔
ممتاز قادری نے اپنی سزا کے خلاف اب سپریم کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے۔