پاکستان کے صوبہ پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کے مقدمہ قتل میں موت کی سزا پانے والے مجرم ممتاز قادری نے اپنی سزا کے خلاف پاکستان کی عدالت عظمیٰ میں اپیل دائر کر دی ہے۔
ممتاز قادری کی طرف سے یہ اپیل ان کے وکیل اور لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس خواجہ شریف نے پیر کو سپریم کورٹ میں دائر کی۔
خواجہ شریف نے درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ ان کے مؤکل نے سابق گورنر کو ذاتی عناد نہیں بلکہ توہین مذہب سے متعلق ان کے ایک بیان پر اشتعال میں آکر قتل کیا، اس لیے ان کی سزا کو کم کیا جائے۔
رواں سال مارچ میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت ممتاز قادری کو سنائی گئی سزائے موت کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ تاہم فوجداری قانون کی دفعہ 302 کے تحت اُن کی سزائے موت کو برقرار رکھا گیا۔
اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے 2011ء میں ممتاز قادری کو دو بار سزائے موت اور جرمانے کی سزا سنائی تھی۔
سلمان تاثیر کو 4 جنوری 2011ء کو ان کے سرکاری محافظوں میں شامل ممتاز قادری نے اس وقت قتل کر دیا تھا جب اسلام آباد میں وہ اپنے دوستوں کے ساتھ کھانا کھانے کے بعد ایک مقامی ریستوران سے باہر آ رہے تھے۔ ممتاز قادری کو موقع پر گرفتار کر لیا گیا تھا۔
ممتاز قادری نے گرفتاری کے بعد مجسٹریٹ کے سامنے اپنے اعترافی بیان میں کہا تھا کہ مقتول نے توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کرنے کی حمایت کی تھی اور اسی بنا پر اُس نے اُن کو قتل کیا۔
پاکستان میں توہین مذہب کا معاملہ انتہائی حساس خیال کیا جاتا ہے اور اس کے بارے میں ایک عرصے سے ملک میں بحث جاری ہے۔
انسانی حقوق کی کئی تنظیمیں اور سول سوسائٹی کے ارکان کا موقف ہے کہ اس قانون کو کچھ لوگ غلط استعمال کرتے ہیں جس کے سدباب کے لیے اس میں ترمیم کی جانی چاہیئے۔
تاہم ملک کے مذہبی حلقوں سمیت اکثریت اس قانون میں کسی بھی طرح کی ترمیم کی سخت مخالف ہے۔