رسائی کے لنکس

سرکاری بھرتیوں پر پابندی پر الیکشن کمیشن سے وضاحت طلب


فائل فوٹو
فائل فوٹو

دورانِ سماعت چیف جسٹس نے سیکریٹری الیکشن کمیشن بابر یعقوب سے استفسار کیا کہ کس قانون کے تحت الیکشن کمیشن کی جانب سے بھرتیوں پر پابندی لگائی گئی؟

پاکستان کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے سرکاری بھرتیوں پر پابندی سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ الیکشن کمیشن کے حکم کی وضاحت ضروری ہے۔ الیکشن کمیشن کو بھرتیوں پر پابندی کا اختیار حاصل ہے یا نہیں، اس کا جائزہ لیا جائے گا۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے آئندہ انتخابات سے قبل سرکاری اداروں میں بھرتیوں پر پابندی سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت پیر کو چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔

دورانِ سماعت چیف جسٹس نے سیکریٹری الیکشن کمیشن بابر یعقوب سے استفسار کیا کہ کس قانون کے تحت الیکشن کمیشن کی جانب سے بھرتیوں پر پابندی لگائی گئی؟ بعض اہم ترین اداروں میں سربراہان کی تقرریوں کا عمل چل رہا ہے۔ کیا پابندی کا اطلاق ان اداروں پر بھی ہو گا؟

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پہلے بتائیں کہ الیکشن کمیشن کے پاس پابندی کااختیار کہاں سے آیا؟ بھرتیوں پر پابندی کا اختیار کس قانون میں ہے؟ اسمبلیاں تحلیل ہونے سے پہلے کیا ایسا حکم دیا جاسکتا ہے؟ کیا اس پابندی سے حکومتی امور پر اثرات تو نہیں ہوں گے؟ کیا الیکشن کمیشن کے ایسے اختیار سے متعلق کوئی عدالتی فیصلہ موجود ہے؟

چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پابندی کے فیصلے کی وضاحت ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ از خود نوٹس لینے کا مقصد بھی آپ کو بتا دیتا ہوں۔ الیکشن میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے، آئندہ انتخابات اپنے وقت پر ہونے چاہیں۔

اپنے ریمارکس میں چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ پنجاب، خیبر پختونخوا اور سندھ بھرتیوں کے خلاف ہیں۔ کیا وفاق درخواست دائر کرنا چاہتا ہے؟ اسمبلیاں تحلیل ہونے سے پہلے کیا ایسا حکم دیا جاسکتا ہے؟

الیکشن کمیشن کے سیکرٹری نے عدالت کو بتایا کہ آرٹیکل 218 کے تحت شفاف انتخابات کی ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہے۔ الیکشن ایکٹ 217 بھی الیکشن کمیشن کو اختیارات دیتا ہے۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ پابندی کے معاملے پر پنجاب، بلوچستان ہائی کورٹس میں کس نے درخواستیں دائر کیں؟ اس پر سیکرٹری الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی حکومت نے بعض بھرتیوں کی اجازت مانگی یے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ اچھی بات ہے کہ نوکریاں الیکشن سے پہلے نہ دی جائیں۔ ایسی پابندی کی وضاحت ہونی چاہیے۔ آج سے پہلے کبھی ایسے نکتے کی وضاحت نہیں ہوئی۔ ہائی کورٹس سے کہہ دیتے ہیں ایسے مقدمات کو جلد نمٹائے۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل اور چاروں صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز کو کو نوٹس جاری کر دیے۔

سرکاری بھرتیوں پر پابندی سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت منگل کو دوبارہ ہوگی۔

رواں سال ہونے والے انتخابات سے قبل الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے 11 اپریل کو اپنے ایک حکم نامے کے ذریعے سرکاری بھرتیوں پر مکمل پابندی عائد کردی تھی۔

الیکشن کمیشن کے مطابق پابندی کا اطلاق یکم اپریل سے ہوگا تاہم پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ہونے والی سرکاری بھرتیاں پابندی سے مستثنیٰ ہوں گی۔

رواں ماہ کے آغاز میں الیکشن کمیشن کی جانب سے عوامی پیسے سے مکمل ہونے والے منصوبوں پر عوامی نمائندوں کے ناموں پر مشتمل تشہیری تختیاں لگانے پر بھی پابندی عائد کی گئی تھی۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری ہونے والے حکم نامے کے مطابق کسی بھی اسکول، ہسپتال، سڑک، ٹیوب ویل یا کسی بھی ترقیاتی اسکیم پر سیاست دانوں کے نام کی تختیاں نہیں لگیں گی۔

الیکشن کمیشن نے اپنے حکم میں کہا تھا کہ یکم مارچ 2018ء سے اب تک جن بھی اسکیموں پر سیاست دانوں کے ناموں کی تختیاں لگ چکی ہیں وہ فوری طور پر ہٹائی جائیں اور مستقبل میں بھی نہ لگنے دی جائیں۔

کئی سیاسی جماعتوں نے الیکشن کمیشن کے اس فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

XS
SM
MD
LG