رسائی کے لنکس

باجوڑ دھماکہ؛ ’زخمی بیٹوں کو دیکھ کر اطمینان ہوا کہ کم از کم وہ زندہ تو ہیں‘


"کارکنوں کے استقبالیہ نعروں کے شور میں جیسے ہی میں اسٹیج پر اپنی کرسی کی جانب بڑھا اور ابھی بیٹھنے ہی والا تھا کہ زوردار دھماکے کی گونج سنائی دی۔ پلک جھپکتے ہی سارا ماحول چیخ و پکار کی آوازوں میں تبدیل ہو گیا۔"

یہ کہنا ہے جمعیت علماء اسلام (ف) کے ضلعی جنرل سیکریٹری عمران ماہر کا جو باجوڑ کے انتظامی مرکز خار میں ہونے والے مبینہ خود کش دھماکے کے کئی گھنٹے گزرنے کے باوجود بھی بد حواس ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ جلسہ کچھ دیر پہلے شروع ہوا تھا اور وہ کچھ تاخیر سے پہنچے تھے۔ یہ جے یو آئی (ف) کا تحصیل سطح کا ورکرز کنونشن تھا۔ باجوڑ کی باقی تحصیلوں میں ایسے کنونشن پہلے ہی ہو چکے تھے اور یہ اس سلسلے کا آخری اجلاس تھا۔

دھماکے کے بارے میں عمران ماہر نے بتایا کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ دھماکے کا رخ اسٹیج کی مخالف سمت میں تھا کیوں کہ اسٹیج پر بیٹھے لوگوں کو اتنا نقصان نہیں پہنچا ۔

ان کے مطابق دھماکے کے بعد ہر طرف چیخ و پکار تھی۔ کسی کو یہ تک نہیں پتا چل رہا تھا کہ کون زخمی ہے اور کون نہیں کیوں کہ تمام لوگ خون میں لت پت تھے۔

جے یو آئی (ف)کے رہنما کے مطابق دھماکے کے بعد ان کے ساتھی انہیں دلاسا دینے کے لیے کچھ دور لے گئے۔ تاہم ان میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ دوبارہ دھماکے کی جگہ کا مشاہدہ کر سکیں۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ جلسہ ایک تنگ مقام پر تھا اس لیے جانی نقصان زیادہ ہوا ہے۔

حکام کے مطابق اتوار کو باجوڑ کے انتظامی مرکز خار میں ہونے والے دھماکے میں اموات کی تعداد 54 ہو چکی ہے جب کہ 100 سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔

تحریکِ طالبان پاکستان کی جانب سے باجوڑ دھماکے سے لا تعلقی کا اظہار کیا گیا ہے۔حکام کو شبہ ہے کہ دھماکے میں شدت پسند تنظیم داعش ملوث ہو سکتی ہے۔

’دھماکہ نئی بننے والی دبئی مارکیٹ میں ہوا‘

مبینہ خود کش حملے کے حوالے سے مقامی صحافی محمد سلیم کا کہنا تھا جس جگہ دھماکہ ہوا ہے اس کو دبئی مارکیٹ کہا جاتا ہے۔ یہ مارکیٹ ابھی نئی بنی ہے اور اکثر جلسے آج کل یہی منعقد ہوتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں محمد سلیم نے مزید کہا کہ یہ جگہ، خار سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

محمد سلیم کے مطابق جے یو آئی (ف) کا جلسہ اتوار کو دن دو بجے شروع ہوا تھا تاہم دھماکہ تقریبا ساڑھے چار بجے کے قریب ہوا۔

ون ون ٹو ٹو کے رضا کار بھی پریشان

سعید اللہ ریسکیو 1122 کے ساتھ بطور ایمرجنسی ٹیکنیشن کام کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یوں تو انہوں نے خود بھی دھماکے کی آواز سنی تھی تاہم انہیں سمت کا اندازہ نہیں ہو رہا تھا۔

ان کے بقول وہ ابھی یہ سوچ ہی رہے تھے کہ اچانک ان کو کال موصول ہوئی جس کے بعد انہوں نے ایمبولنس دبئی مارکیٹ کی جانب روانہ کی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سعید اللہ نے بتایا کہ ون ون ٹو ٹو کا رسپانس ٹائم صرف دو منٹ ہوتا ہے۔ جب وہ وہاں پہنچے تو حالات بہت خراب تھے۔ ہر طرف چیخ و پکار تھی۔ ان کی ٹیم نے جلدی جلدی شدید زخمیوں کو ایمبولنس میں منتقل کرنا شروع کیا۔

سعید اللہ کے مطابق زیادہ تر زخمیوں کو سر پر چوٹیں آئی تھیں۔ تاہم کچھ کی ٹانگیں اور ہاتھ بھی نشانہ بنے تھے۔

ان کے بقول ان کی سروس کے دوران یہ پہلا واقعہ تھا کہ وہ اتنے زیادہ ہلاک اور زخمی افراد کو ایک ساتھ ڈیل کر رہے تھے۔

کئی زخمیوں کی حالت خطرے سے باہر

ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسر (ڈی ایچ او) ڈاکٹر فیصل کمال کا کہنا تھا کہ کہ اسپتال لائے جانے والے متاثرین کی انٹرنل بلیڈنگ بہت زیادہ تھی۔

ان کے مطابق ایسے زخمی جن کی حالت تشویش ناک تھی انہیں سی ایم ایچ منتقل کر دیا گیا تھا جب کہ زخمیوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے کچھ کو تمیر گرا اسپتال بھیج دیا گیا تھا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے فیصل کمال کا کہنا تھا کہ اسپتال میں زیرِ علاج 80 زخمیوں کی حالت اب خطرے سے باہر ہے۔

دھماکے میں دو بیٹے زخمی

عبد الحمید باجوڑ کے مکین ہیں اور یہاں ایک دکان چلاتے ہیں۔

دھماکے کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ زور دار آواز سن کر انہیں شدید فکر لاحق ہوئی کیوں کہ جلسہ گاہ ان کے گھر کے قریب ہی تھی۔ انھیں خدشہ تھا کہ ان کے گھر والے بھی وہاں گئے ہوں گے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے عبد الحمید نے بتایا کہ جیسے ہی وہ دھماکے والی جگہ پر پہنچے تو انہوں نے ہر طرف خون میں لت پت لوگوں کو زمین پر گرے ہوئے پایا۔

ان کے بقول وہ فوری طور پر تو وہ اپنے بیٹوں اور رشتہ داروں کو نہیں پہچان سکے تاہم تھوڑی دیر بعد انہیں معلوم ہوا کہ ان کے بیٹے اسپتال میں ہیں جس کے فوری بعد وہ اسپتال کی جانب دوڑے۔

عبد الحمید نے بتایا کہ اسپتال میں انہیں دو بیٹوں کے زخمی ہونے کا معلوم ہوا جب کہ ان کے دو عزیزوں کی اس دھماکے میں موت ہو گئی تھی۔

ہر کچھ دیر بعد جنازہ

عبدالحمید نے رات اپنے 10 برس کے بیٹے ہلال احمد کے ساتھ اسپتال میں گزاری۔

ان کا کہنا تھا کہ دھماکے کے وقت ان کا بیٹا اسٹیج سے کچھ فاصلے پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس کی ٹانگوں اور پیٹ میں بال بیئرنگ لگے ہیں جس کے باعث وہ چل نہیں سکتا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان کا دوسرا زخمی بیٹا تیمر گرہ اسپتال میں زیرِ علاج ہے۔

عبد الحمید کا کہنا تھا کہ باجوڑ میں ہر طرف سوگ ہے۔وہ کبھی بیٹے کے پاس اسپتال آتے ہیں تو تھوڑی دیر بعد کسی نہ کسی کے جنازے میں شریک بھی ہو رہے ہیں۔

ان کے بقول دھماکے کی شدت اگرچہ بہت زیادہ تھی۔ تاہم ان کو اپنے زخمی بیٹوں کو دیکھ کر قدرے اطمینان ہوا کہ کم از کم وہ زندہ تو ہیں۔

XS
SM
MD
LG