الی نوئے یونیورسٹی کے ایک طالب علم سیمسن رافیلسن نے 1917 میں ایک تھیٹر میں میوزیکل ڈرامہ دیکھا جس میں ایک گلوکار نے اسے بہت متاثر کیا۔ رافیلسن نے اس سے ملاقات کی اور حال احوال دریافت کیا۔ گلوکار نے رافیلسن کو اپنی زندگی کی دلچسپ کہانی سنائی۔
رافیلسن نے تعلیم مکمل کرکے ادبی دنیا میں کرئیر بنایا اور کئی سال بعد اس گلوکار کی زندگی پر ایک افسانہ دا ڈے آف ایٹونمنٹ کے عنوان سے لکھا۔ یہ تحریر 1922 میں ایوی بڈیز میگزین میں شائع ہوئی۔
رافیلسن نے اسے ڈرامے کی صورت بھی دی جسے براڈوے پر اسٹیج کیا گیا اور بہت مقبول ہوا۔ جارج جیسل نے اس میں مرکزی کردار ادا کیا۔ ڈرامے کی مقبولیت کے پیش نظر وارنر برادرز نے اس کے حقوق حاصل کیے اور فلم بنانے کا فیصلہ کیا۔
اس وقت تک فلمیں آواز سے محروم ہوتی تھیں۔ خاموش فلموں میں اداکاروں کے مکالمے یا کہانی کو بیان کرنے کے لیے فلم کے بیچ میں سلائیڈز دکھائی جاتی تھیں۔ آواز کی کمی کو دور کرنے کے لیے سینما گھر میں کوئی ایک ساز، عموماً پیانو بجانے والا یا کبھی کبھی پورا آرکسٹرا موجود ہوتا تھا جو فلم کے مناظر کے مطابق موسیقی کا اہتمام کرتا تھا۔
اس سال ٹیکنالوجی نے پیشرفت کی اور متحرک تصاویر اور آواز کا ملن ممکن ہوگیا۔ وارنر برادرز نے فیصلہ کیا کہ گلوکار کی زندگی پر فلم میں گیت شامل کیے جائیں گے۔ لیکن اس منصوبے میں ابتدا میں رکاوٹ آگئی۔ جارج جیسل نے مختلف وجوہ پر فلم میں کام کرنے سے انکار کر دیا۔
اس کے بعد وارنر برادرز نے فلم کے لیے اس وقت کے مشہور گلوکار الجونسن کو پیشکش کی جو انھوں نے قبول کرلی۔ اور وہ کیوں قبول نہ کرتے، کیونکہ وہ وہی گلوکار تھے جن کی حقیقی زندگی پر رافیلسن نے کہانی لکھی تھی۔
اس فلم کا نام جاز سنگر ہے جو نہ صرف دنیا کی اولین بولتی فلم ہے بلکہ پہلی میوزیکل بھی۔ اس سے پہلے اداکاروں کے مکالمے تک سنائی نہیں دیتے تھے تو گیت کیسے پیش کیے جاتے۔
جاز سنگر مکمل طور پر بولتی ہوئی فلم نہیں تھی۔ اس میں گانوں کے علاوہ چند مکالمے ہی سنے جاسکتے ہیں۔ باقی دورانیے میں خاموش فلموں کی طرح سلائیڈز دکھا کر کہانی بیان کی گئی ہے۔
جاز سنگر ایک لڑکے جیکی روبنووٹز کی کہانی ہے جو نیویارک کے کٹر یہودی خاندان میں پیدا ہوا تھا۔ اس کا باپ یہودی عبادت گاہ یعنی سیناگاگ میں کینٹر ہے یعنی دعائیہ گیت گاتا ہے۔ اس کا خاندان پانچ پشتوں سے یہی کام کرتا آیا ہے۔
جیکی کی آواز اچھی ہے اور اس نے باپ سے دعائیہ گیت سیکھ لیے ہیں لیکن وہ چھپ کر گانے بھی گاتا ہے۔ سخت گیر باپ کو پتا چلتا ہے تو وہ بیٹے کی پٹائی کرتا ہے۔ بیٹا گھر سے بھاگ جاتا ہے اور موسیقار بن جاتا ہے۔
جیکی کو ایک کے بعد ایک مواقع ملتے جاتے ہیں اور آخر براڈوے میں پرفارمنس کے لیے منتخب کر لیا جاتا ہے۔ یہ پرفارمنس یہودیوں کے تہوار یوم کپور پر ہے۔ اس دن روایتی طور پر جیکی کا باپ دعائیہ گیت گاتا ہے۔ لیکن اس دن وہ بیمار ہے۔ جیکی کو اطلاع ملتی ہے کہ اس کا باپ بسترِ مرگ پر ہے اور اس کی خواہش ہے کہ بیٹا خاندانی روایت کا پاس کرتے ہوئے عبادات کے لیے حاضر ہو۔
ایک طرف کریئر کا سوال تھا اور دوسری جانب خاندان کی عزت اور روایت داؤ پر لگی ہوئی تھی۔ جیکی کے لیے وہ مشکل فیصلے کا دن تھا۔
فلم میں الجونسن نے اپنے سب گیت خود گائے ہیں۔ لیکن اتفاق یہ ہوا کہ پہلی بولتی فلم میں پہلی آواز ان کی نہیں۔ جاز سنگر کا پہلا گیت جیکی کے لڑکپن کے دور کا ہے اور وہ کسی نامعلوم گلوکار نے گایا ہے۔ بدقسمتی سے اس کا نام کہیں نہیں ملتا۔
پہلے آسکر ایوارڈ 1928 میں منعقد ہوئے تو اس میں چار فلمیں نامزد کی گئیں۔ لیکن جاز سنگر ان میں شامل نہیں تھی۔ اسے صرف ماخوذ اسکرپٹس کے شعبے میں نامزد کیا گیا۔ لیکن اب اسے بہترین فلموں میں شمار کیا جاتا ہے اور اسے ہالی ووڈ کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔