امریکی خاتونِ اول ڈاکٹر جل بائیڈن نے محکمہ خارجہ کی جانب سے اس سال کا 'ویمن آف کریج ایوارڈ' حاصل کرنے والی خواتین کی جرات مندانہ خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ انصاف تب انصاف ہے جب سب کیلئے ہو۔ انہوں نے ایوارڈ وصول کرنے والی خواتین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی جنگ سب کی جنگ ہےاور آپ کی جرات ہم سے مطالبہ کرتی ہےکہ سب مل کر بار بار اکٹھے چلیں۔ انہوں نے کہا کہ اِن خواتین نے سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا کہ سب کیلئے ایک روشن مستقبل تشکیل دیا جائے۔
ایوارڈ دینے کی ورچوئل تقریب سے خطاب کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ صنفی مساوات اور خواتین کو بااختیار بنانا، امریکی خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے بنیادی اصولوں میں شامل ہے اور امریکہ پوری طرح سے ان کو یقینی بنانے کا عزم رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر دن کی طرح آج بھی امریکہ اپنے ہاں اور دنیا بھر میں خواتین کو بااختیار بنانے اور صنفی مساوات سے بھر پور طریقے سے وابستہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ ہر خاتون اور لڑکی کی صحت، مالی، اور سیاسی حقوق کی ترویج و ترقی اورحمایت کیلئے تیار ہے، کیونکہ جب ایک عورت با اختیار ہوتی ہے تو یہ سب کیلئے بہتری کا سبب ہوتا ہے۔
امریکی محکمہِ خارجہ کی جانب سے اس سال باہمت خواتین کی خدمات کے اعتراف میں دیے جانے والے 'ویمن آف کریج ایوارڈ' حاصل کرنے والی خواتین کی فہرست میں پاکستان اور بھارت سے کسی خاتون کا نام شامل نہیں ہیں۔ افغانستان، سری لنکا، نیپال، ایران، میانمار، ترکی اور چین سمیت لاطینی امریکہ اور افریقہ کی خواتین ایوارڈ وصول کرنے والوں میں شامل ہیں۔ جب کہ افغانستان سے تعلق رکھنے والی سات خواتین کو بعد از مرگ اعزاز سے نوازا گیا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ ہر سال آٹھ مارچ کو مختلف شعبوں میں غیر معمولی جرات اور بہادری کا مظاہری کرنے والی غیر معمولی خواتین کو اس اعزاز سے نوازتا ہے۔
کرونا وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے احتیاط کے پیشِ نظر یہ تقریب ورچوئل یعنی آن لائن ہوئی۔ اس میں سماجی فاصلے کا احترام کرتے ہوئے پریس کے افراد شامل ہوئے اور اسے محکمۂ خارجہ کی ویب سائٹ پر براہ راست نشر کیا گیا۔
اس سال افغانستان سے تعلق رکھنے والی سات خواتین لیڈروں اور کارکنوں کو ایک اعزازی ایوارڈ دیا گیا جنہوں نے گزشتہ سال افغان عوام کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔
دنیا بھر میں سخت خطرات اور اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر امن، انصاف، انسانی حقوق، صنفی مساوات اور خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے غیر معمولی جرات اور لیڈر شپ کے اعتراف میں، امریکی وزیرِ خارجہ کی جانب سے دیا جانے والا یہ ایوارڈ اپنے 15 ویں برس میں داخل ہو چکا ہے۔
امریکی محکمۂ خارجہ، مارچ 2007 میں اس کے آغاز سے اب تک 75 ملکوں سے 155 خواتین کی خدمات کے اعتراف میں یہ ایوارڈ دے چکا ہے۔
ہر ملک میں تعینات، امریکی سفارتی مشن، اپنے میزبان ملک سے کسی جرات مند خاتون کے نام کی سفارش کرتے ہیں جس کے بعد محکمہ خارجہ کے سینئر عہدیدار، حتمی فہرست کی منظوری دیتے ہیں۔
امریکی وزیرِ خارجہ بلنکن، نے افغانستان کی سات خواتین کو بعد از مرگ اعزازی ایوارڈ پیش کیا، جنہیں افغانستان کی تاریخ کے ایک اہم موڑ پر 2020 میں عوامی خدمات کی انجام دہی کے دوران قتل کر دیا گیا۔ امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ یہ قتل خواتین کے خلاف ایک انتباہی رجحان کا پتہ دیتے ہیں اور امریکہ تشدد کے ایسے واقعات کی شدید مذمت کرتا ہے۔
اعزازی ایوارڈ حاصل کرنے والی سات افغان خواتین
فاطمہ نتاشا خلیل، جو افغانستان کے آزاد و خود مختار کمیشن برائے انسانی حقوق کی عہدیدار تھیں، جنہیں کابل میں جون 2020 میں دفتر جاتے ہوئے ڈرائیور سمیت بم حملے میں ہلاک کر دیا گیا۔
جنرل شرمیلا فروغ، افغانستان کی نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی میں جینڈر یونٹ کی سربراہ تھیں، انہیں مارچ 2020 میں کابل میں بم حملے میں ہلاک کر دیا گیا۔
مریم نور زاد، صوبہ وردک اور بامیان کے دور دراز علاقوں میں مڈ وائف کی خدمات انجام دیتی تھیں۔ انہیں مئی 2020 میں کابل کے ایک زچہ بچہ وارڈ میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ اس حملے میں کئی خواتین اور نومولود بچوں کو بھی گولیاں ماری گئیں۔
فاطمہ رجبی، انسدادَ منشیات ڈویژن میں ایک 23 سالہ پولیس افسر تھیں۔ انہیں اپے آبائی گھر جاتے ہوئے بس روک کر اغوا کیا گیا اور پھر دو ہفتے بعد قتل کرکے نعش گھر بھیج دی گئی۔
فرشتے، دختر امیر محمد، محکمہ جیل خانہ جات میں بطور گارڈ کام کر رہی تھیں، اکتوبر 2020 کو انہیں ٹیکسی پر گھر جاتے ہوئے نا معلوم حملہ آور نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
ملالئی میوند، انعکاس ریڈیو اور ٹیلی وژن کی رپورٹر تھیں جنہیں نامعلوم حملہ آور نے ڈرائیور سمیت گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ اس سے پانچ سال پہلے ان کی والدہ کو بھی جو خود بھی ایک سرگرم کارکن تھیں۔ نامعلوم حملہ آور نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
انتیس سالہ فرشتے کوہستانی، خواتین کے حقوق اور جمہوریت کے لیے کام کرنے والی سرگرم کارکن تھیں جنہیں دسمبر 2020 میں نامعلوم حملہ آور نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
یہ تو وہ افغان خواتین ہیں جنہیں بعد از مرگ اعزازی ایوارڈ دیا گیا ۔
سری لنکا، نیپال، میانمار، ایران اور چینی خواتین کے لیے بھی ایوارڈ
اب ذکر اُن خواتین کا، جنہیں دفترِ خارجہ 2021 کا ویمن آف کریج ایوارڈ دیا گیا ۔
سری لنکا کی رانیتھا گنن راجہ ایک وکیل ہیں جنہوں نے اپنی پیشہ وارانہ زندگی، جبری گمشدگیوں اور بغیر کسی فردِ جرم کے جیل میں قید افراد کو انصاف دلانے کے لیے وقف کر دی۔ وہ بغیر معاوضے کے یہ کام کرتی ہیں۔
نیپال کی مسکان خاتون کو یہ ایوارڈ تیزاب پھینکنے والوں کے خلاف سخت ترین سزا کے نئے قانون کو منظور کروانے کے لیے دیا گیا ہے۔
میانمار سے تعلق رکھنے والی پھوئے پھوئے آنگ ایک ابھرتی ہوئی لیڈر ہیں جنہیں، مختلف نسل، اور مذاہب کے افراد کے درمیان نوجوانوں کو ایک دوسرے سے قریب لانے اور سمجھنے کے لیے مواقع فراہم کرنے پر ایوارڈ دیا گیا۔
ایران کی شہرے بیات کو 2020 میں خواتین کی شطرنج کی عالمی چیمپئن شپ میں شریک ہونے اور وہاں بغیر حجاب کے تصویر اتروانے پر ایران میں تعزیرات کا سامنا ہے۔ انہوں نے برطانیہ میں سکونت اختیار کر لی اور اب خواتین کے حقوق کے لیے کام کر رہی ہیں۔
ترکی کی کنان گیولیو گزشتہ 31 سال سے خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم ہیں۔ وہ خواتین کی بہبود کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں کے ایک اتحاد ٹرکش فیڈریشن آف ویمن ایسو سی ایشن کی صدر ہیں۔ انہیں صنفی مساوات ، گورننس، لیبرفورس اور تعلیم کے شعبے میں خواتین کی شرکت بڑھانے کے لیے خدمات پر ویمن آف کریج ایوارڈ دیا گیا۔
چین کی وانگ یو، اپنے ملک میں انسانی حقوق کی سب سے ممتاز وکیل ہیں۔ انہیں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے پر گرفتار کیا گیا۔
اس کے علاوہ صومالیہ کی وکیل زہرا محمد احمد، کو ان کی خدمات کے اعتراف میں ایوارڈ دیا گیا ہے۔ سسٹر الیسیا ویساس مورو ایک کیتھولک راہبہ ہیں، جنہیں مصر اور اسرائیل اور فلسطینی علاقے میں طبی خدمات انجام دینے پر ایوارڈ دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ لاطینی امریکہ، مشرقی یورپ اور افریقہ میں خواتین اور شہری حقوق کے لیے کام کرنے والی خواتین کی خدمات کے اعتراف میں ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔