رسائی کے لنکس

فیصل آباد میں طالبہ پر تشدد؛ 'جب قانون کمزور ہو تو طاقت ور کو شہ ملتی ہے'


پاکستان کے شہر فیصل آباد میں میڈیکل کی طالبہ کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کے معاملے کی تحقیقات جاری ہیں، پولیس نے شریک ملزمہ کا نام اسٹاپ لسٹ میں ڈلوانے کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) سے رُجوع کر لیا ہے۔

میڈیکل کی طالبہ پر مبینہ تشدد اور اسے زبردستی جوتے چاٹنے پر مجبور کرنے کے معاملے پر پاکستان میں شدید ردِعمل سامنے آیا ہے، سوشل میڈیا پر بھی یہ معاملہ موضوع بحث ہے۔

سٹی پولیس آفیسر فیصل آباد عمر سعید ملک کہتے ہیں کہ اُنہیں شکایت کنندہ لڑکی اور ملزمان کی نجی زندگی سے کوئی سروکار نہیں، پولیس اس انسانیت سوز رویے، جنسی استحصال، مار پیٹ اور دیگر جرائم کے حوالے سے تفتیش کر رہی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے عمر سعید ملک کا کہنا تھا کہ واقعے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے ایس پی انوسٹی گیشن کی سربراہی میں ایک پانچ رُکنی کمیٹی تشکیل دے گئی ہے جس میں ایک خاتون پولیس افسر بھی شامل ہیں۔

اُن کے بقول ملزمہ انا شیخ کو بیرونِ ملک جانے سے روکنے کے لیے اُن کا نام 30 دن کے لیے اسٹاپ لسٹ میں ڈلوانے کی سفارش کی گئی ہے۔

عمر سعید ملک کا کہنا تھا کہ پولیس کی پوری کوشش ہے کہ متاثرہ طالبہ کو انصاف ملے اور ملزمان کو سخت سے سخت سزا دلوائی جا سکے۔ اُن کا کہنا تھا کہ واقعے میں ملوث دیگر ملزمان کی گرفتاری کے لیے بھی چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

اُن کے بقول لڑکی کے اغوا میں استعمال ہونے والی گاڑی اور اسلحہ بھی پولیس نے برآمد کر لیا ہے۔

خیال رہے کہ بدھ کو پاکستان کے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں ایک ڈری سہمی لڑکی کو سامنے پڑے جوتے چاٹنےپر مجبور کیا جا رہا تھا۔ ملزمان نے میڈیکل کے فائنل ایئر کی طالبہ خدیجہ کو تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے اس کی بھنویں مونڈ دی تھیں جب کہ اس کے بال بھی کاٹ دیے تھے۔

درج کیے گئے مقدمے کے مطابق متاثرہ طالبہ اپنی بوڑھی والدہ کے ساتھ رہتی ہے۔ جس کے دو بھائی برطانیہ اور آسٹریلیا میں مقیم ہیں۔ مقدمے میں کہا گیا ہے کہ اِس کی اپنے اسکول کی ساتھی انا شیخ کے ساتھ دوستی اور خاندانی مراسم تھے۔ جن کے والد اور مقدمے میں نامزد مرکزی ملزم شیخ دانش نے اُن کے گھر شادی کا پیغام بھیجا اور انکار پر اسے تشدد کا نشانہ بنایا۔

'طاقت ور کو پتا ہوتا ہے کہ وہ بچ نکلے گا'

مبصرین کے مطابق پاکستان میں ایک طرف تو حکومتیں خواتین کو بااختیار بنانے، فیصلہ سازی میں شامل کرنے اور عملی طور پر اُنہیں ہر میدان میں شامل کرنے کی باتیں کرتی ہیں، لیکن ایسے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ محض ایک خواب بن کر ہی رہ گیا ہے۔

جامعہ پنجاب کے شعبہ پولیٹیکل سائنس کی چیئرپرسن پروفیسر ڈاکٹر ارم خالد سمجھتی ہیں کہ جس شدت کے ساتھ معاشرے میں انٹرنیٹ کا غیر ضروری استعمال بڑھا ہے اس سے معاشرے میں ایک بڑی ذہنی منفی تبدیلی بھی رونما ہوئی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پہلے والدین بچوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اُن کی تربیت پر بھی زور دیتے تھے۔ لیکن جب والدین ہی غلط مثال قائم کریں تو بچے بھی اس کی پیروی کرتے ہیں اور معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔

خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم فرزانہ باری کہتی ہیں کہ جب معاشرے میں سزا اور جزا کا تصور ختم ہو جائے تو پھر طاقت ور طبقات کو اپنی مرضی مسلط کرنے کی شہ ملتی ہے۔ یہ ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ قانون کی عمل داری یقینی بنائے تاکہ ایسے واقعات کی حوصلہ شکنی ہو سکے۔

ایف آئی آر کا متن
ایف آئی آر کا متن

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے فرزانہ باری کا کہنا تھا کہ معاشرے کے ہر طبقے میں عدم برداشت بڑھتی جا رہی ہے.

اُن کے بقول مہذب معاشرہ اسی وقت تشکیل پاتا ہے جہاں جرم چھوٹا ہو یا بڑا ہر کسی کو کٹہرے میں لایا جائے۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں جو طاقت ور ہے وہ اپنی طاقت کے بل بوتے پر اپنی من مانی کرتا ہے جس سے مظلوم طبقات میں محرومیاں بڑھتی ہیں۔

ملزمان کو کیا سزا ہو سکتی ہے؟

ماہرِ قانون اور خود بھی قاتلانہ حملے کانشانہ بننے والی خدیجہ صدیقی ایڈووکیٹ کہتی ہیں کہ ایسے کیسز میں مدعی اپنے بیان پر قائم رہے تو پھر کیس آگے بڑھ سکتا ہے اور ملزمان کو سزائیں دی جا سکتی ہیں۔

اُن کے بقول ایسے کیسز میں طاقت ور طبقہ مدعی پر دباؤ ڈالتا ہے اور اسے راضی نامے پر مجبور کیا جاتا ہے جس کی ماضی میں کئی مثالیں موجود ہیں۔

خدیجہ کہتی ہیں کہ فیصل آباد واقعے میں ایک خاتون خود مدعی بن کر سامنے آئی ہے، لہذٰا معاشرے کو اس کا بھرپور ساتھ دینا چاہیے۔

خدیجہ صدیقی سمجھتی ہیں کہ مقدمے میں جو دفعات شامل کی گئیں ہیں اگر وہ ثابت ہو جاتی ہیں تو ملزمان کو 25 برس تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ لیکن عدالت میں متاثرہ لڑکی خدیجہ کا عدالت میں بیان ملزمان کی سزا کے تعین میں مددگار ثابت ہو گا۔

اُن کے بقول پاکستانی معاشرے میں ایسے کئی واقعات رُونما ہوتے ہیں جو سامنے نہیں آتے، جو واقعات سوشل میڈیا پر آ جائیں اس پر ادارے حرکت میں آتے ہیں اور کارروائی ہوتی ہے۔

گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اصغر زیدی سمجھتے ہیں کہ معاشرے میں عدم برداشت کی وجہ سے لوگ اپنی عدالتیں خود لگا رہے ہیں اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھڑک اُٹھتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ تعلیمی ادارے اور والدین اپنی ذمے داریاں پوری نہیں کر رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کردار سازی جس پر ماضی میں بہت توجہ دی جاتی تھی، اب یہ معاملہ نظرانداز ہو رہا ہے۔

فیصل آباد واقعہ سے متعلق اُن کا کہنا تھا کہ ایسے معاشرتی رویوں کو ختم کرنے کے لیے نصاب میں تربیت کو شامل کیا جانا چاہیے۔ نصابی کتب کے علاوہ بچوں اور معاشرے کے افراد کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ذمہ داریاں کیا ہیں، اخلاقیات کیا ہیں۔ بچوں کو زندگی گزارنے کے لیے مثالیں دے کر سمجھایا جائے۔

اُن کا کہنا تھا کہ فیصل آباد واقعے کی ویڈیو دیکھ کر افسوس ہوا کہ معاشرہ کس جانب چل نکلا ہے۔ ایسا کر کے لوگوں کے کون سے جذبات کو تسکین پہنچتی ہے۔

XS
SM
MD
LG