واشنگٹن —
امریکی خفیہ ایجنسی 'این ایس اے' کی جانب سے اسپین کے شہریوں کی جاسوسی کرنے سے متعلق الزامات سامنے آنے کے بعد اسپین کی حکومت نے بھی امریکہ سے سخت احتجاج کیا ہے۔
اسپین کے صفِ اول کے اخبار 'الموند' نے پیر کو شائع کی جانے والی اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ امریکی خفیہ ادارے 'نیشنل سکیورٹی ایجنسی (این ایس اے)' نے صرف ایک ماہ کے عرصے کے دوران میں ہسپانوی باشندوں کی چھ کروڑ فون کالوں کی نگرانی کی۔
رپورٹ کے مطابق 'این ایس اے' نے یہ نگرانی 10 دسمبر 2012ء سے 8 جنوری 2013ء کے دوران کی تھی جس کے دوران میں امریکی خفیہ ایجنسی نے صارفین کی ذاتی معلومات، بشمول انٹرنیٹ براؤزرز، ای میل اور سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس پر موجود 'ڈیٹا' تک بھی رسائی حاصل کی تھی۔
اس رپورٹ کی اشاعت کے بعد اسپین کی وزارتِ خارجہ نے میڈرڈ میں تعینات امریکی سفیر جیمز کوسٹوس کو طلب کرکے سخت احتجاج کیا ہے اور جاسوسی کی ان کاروائیوں سے متعلق تفصیلی معلومات فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ہسپانوی اخبار کا کہنا ہے کہ اس کی رپورٹ کی بنیاد 'این ایس اے' کے سابق جزوقتی ملازم ایڈورڈ سنوڈن کی جانب سے مہیا کی جانے والی خفیہ سرکاری دستاویزات ہیں۔
سنوڈن رواں برس کے آغاز میں امریکہ سے فرار ہوکر ہانگ کانگ پہنچے تھےجس کے بعد انہوں نے امریکی خفیہ ادارے کے جاسوسی سے متعلق منصوبوں اور کاروائیوں کی تفصیل صحافیوں کو فراہم کی تھی۔ وہ اس وقت عارضی سیاسی پناہ پر روس میں مقیم ہیں جب کہ امریکہ میں ان کے خلاف "ریاست سے غداری" کے الزام میں تحقیقات کی جارہی ہیں۔
سنوڈن کے انکشافات کے بعد 'این ایس اے' اور امریکہ کو اپنے اتحادی یورپی ممالک کی سخت برہمی اور ناراضی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جو امریکی ایجنسی کی جانب سے اپنے سیاسی رہنماؤں اور عام شہریوں کی جاسوسی کرنے پر برانگیختہ ہیں۔
یورپی رہنماؤں کی جاسوسی کا اسکینڈل سامنے آنے کے بعد سے اسپین کی حکومت اپنے شہریوں اور رہنماؤں کی جاسوسی کیے جانے سے متعلق لاعلمی ظاہر کر رہی تھی۔ لیکن ہسپانوی اخبار کی رپورٹ کی اشاعت کے بعد سے اسپین بھی ان یورپی ممالک کی فہرست میں شامل ہوگیا ہے جنہوں نے جاسوسی کی کاروائیوں پر امریکہ سے وضاحت طلب کی ہے۔
'یورپی یونین' اور جرمنی نے ان کاروائیوں کی تفصیلات اکٹھی کرنے اور احتجاج ریکارڈ کرانے کے لیے اپنے نمائندے واشنگٹن بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔
یورپ کے سخت احتجاج کے بعد اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ امریکہ کے صد ربراک اوباما کے حکم پر 'این ایس اے' نے جاسوسی کا یہ پروگرام بند کردیاہے۔
امریکی اخبار 'وال اسٹریٹ جنرل' نے پیر کو اپنی ایک رپورٹ میں انٹیلی جنس ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ صدر اوباما اقتدار سنبھالنے کے پانچ برس بعد تک اس معاملے سے لاعلم رہے تھے اور انہیں چند ماہ قبل ہی نگرانی کے اس منصوبے کا علم ہوا تھا۔
اخبار کی خبر کے مطابق امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی ’این ایس اے‘ نے دنیا کے 35 رہنماؤں کے ٹیلی فون ’ٹیپ‘ کیے تھے، اور وائٹ ہاؤس کو اس پروگرام کا علم ہونے کے بعد ایجنسی نے اپنا بیشتر آپریشن روک دیا تھا۔
اخبار نے امریکی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ ’این ایس اے‘ کے جاسوسی کے آپریشنز کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ ان سب کے بارے میں صدر کو آگاہ کرنا عملی طور پر ممکن نہیں۔
اسپین کے صفِ اول کے اخبار 'الموند' نے پیر کو شائع کی جانے والی اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ امریکی خفیہ ادارے 'نیشنل سکیورٹی ایجنسی (این ایس اے)' نے صرف ایک ماہ کے عرصے کے دوران میں ہسپانوی باشندوں کی چھ کروڑ فون کالوں کی نگرانی کی۔
رپورٹ کے مطابق 'این ایس اے' نے یہ نگرانی 10 دسمبر 2012ء سے 8 جنوری 2013ء کے دوران کی تھی جس کے دوران میں امریکی خفیہ ایجنسی نے صارفین کی ذاتی معلومات، بشمول انٹرنیٹ براؤزرز، ای میل اور سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس پر موجود 'ڈیٹا' تک بھی رسائی حاصل کی تھی۔
اس رپورٹ کی اشاعت کے بعد اسپین کی وزارتِ خارجہ نے میڈرڈ میں تعینات امریکی سفیر جیمز کوسٹوس کو طلب کرکے سخت احتجاج کیا ہے اور جاسوسی کی ان کاروائیوں سے متعلق تفصیلی معلومات فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ہسپانوی اخبار کا کہنا ہے کہ اس کی رپورٹ کی بنیاد 'این ایس اے' کے سابق جزوقتی ملازم ایڈورڈ سنوڈن کی جانب سے مہیا کی جانے والی خفیہ سرکاری دستاویزات ہیں۔
سنوڈن رواں برس کے آغاز میں امریکہ سے فرار ہوکر ہانگ کانگ پہنچے تھےجس کے بعد انہوں نے امریکی خفیہ ادارے کے جاسوسی سے متعلق منصوبوں اور کاروائیوں کی تفصیل صحافیوں کو فراہم کی تھی۔ وہ اس وقت عارضی سیاسی پناہ پر روس میں مقیم ہیں جب کہ امریکہ میں ان کے خلاف "ریاست سے غداری" کے الزام میں تحقیقات کی جارہی ہیں۔
سنوڈن کے انکشافات کے بعد 'این ایس اے' اور امریکہ کو اپنے اتحادی یورپی ممالک کی سخت برہمی اور ناراضی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جو امریکی ایجنسی کی جانب سے اپنے سیاسی رہنماؤں اور عام شہریوں کی جاسوسی کرنے پر برانگیختہ ہیں۔
یورپی رہنماؤں کی جاسوسی کا اسکینڈل سامنے آنے کے بعد سے اسپین کی حکومت اپنے شہریوں اور رہنماؤں کی جاسوسی کیے جانے سے متعلق لاعلمی ظاہر کر رہی تھی۔ لیکن ہسپانوی اخبار کی رپورٹ کی اشاعت کے بعد سے اسپین بھی ان یورپی ممالک کی فہرست میں شامل ہوگیا ہے جنہوں نے جاسوسی کی کاروائیوں پر امریکہ سے وضاحت طلب کی ہے۔
'یورپی یونین' اور جرمنی نے ان کاروائیوں کی تفصیلات اکٹھی کرنے اور احتجاج ریکارڈ کرانے کے لیے اپنے نمائندے واشنگٹن بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔
یورپ کے سخت احتجاج کے بعد اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ امریکہ کے صد ربراک اوباما کے حکم پر 'این ایس اے' نے جاسوسی کا یہ پروگرام بند کردیاہے۔
امریکی اخبار 'وال اسٹریٹ جنرل' نے پیر کو اپنی ایک رپورٹ میں انٹیلی جنس ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ صدر اوباما اقتدار سنبھالنے کے پانچ برس بعد تک اس معاملے سے لاعلم رہے تھے اور انہیں چند ماہ قبل ہی نگرانی کے اس منصوبے کا علم ہوا تھا۔
اخبار کی خبر کے مطابق امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی ’این ایس اے‘ نے دنیا کے 35 رہنماؤں کے ٹیلی فون ’ٹیپ‘ کیے تھے، اور وائٹ ہاؤس کو اس پروگرام کا علم ہونے کے بعد ایجنسی نے اپنا بیشتر آپریشن روک دیا تھا۔
اخبار نے امریکی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ ’این ایس اے‘ کے جاسوسی کے آپریشنز کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ ان سب کے بارے میں صدر کو آگاہ کرنا عملی طور پر ممکن نہیں۔