رسائی کے لنکس

اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں قتل عام کے مقدمے میں شامل ہونے کے لیے اسپین کی درخواست


اسپین کے وزیر اعظم پیڈرو سانچیز
اسپین کے وزیر اعظم پیڈرو سانچیز
  • اسپین پہلا ایسا یورپی ملک ہے جس نے عالمی عدالت انصاف میں اسرائیل کے خلاف قتل عام کے مقدمے میں شامل ہونے کی درخواست دی ہے۔
  • جنوبی افریقہ نے گزشتہ سال کے آخر میں اسرائیل کے خلاف غزہ میں بڑے پیمانے پر قتال کا مقدمہ دائر کیا تھا۔
  • 140 سے زیادہ ممالک اب تک فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کر چکے ہیں۔

اسپین جمعرات کے روز ایسا پہلا یورپی ملک بن گیا، جس نے اقوام متحدہ کی عدالت سے غزہ میں اسرائیل پر قتل عام کا الزام لگائے جانے والے جنوبی افریقہ کے مقدمے میں شامل ہونے کی اجازت طلب کی ہے۔

جنوبی افریقہ نے گزشتہ برس کے آخر میں عالمی عدالت انصاف میں اپنا مقدمہ دائر کیا تھا۔ جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ اسرائیل اپنے فوجی حملے میں نسل کشی سے متعلق کنونشن کی خلاف ورزی کر رہا ہے جس کا ہدف بن کر غزہ کا بڑا حصہ تباہ و برباد ہو چکا ہے۔

عدالت نے اسرائیل کو غزہ کے جنوبی شہر رفع میں اپنی فوجی کارروائی فوری طور پر روکنے کا حکم دیا ہے۔ تاہم محصور علاقے میں جنگ بندی کا حکم نہیں دیا گیا۔ اسرائیل نے اس حکم کی تعمیل نہیں کی اور نہ ہی ایسے کوئی اشارات دیے کہ وہ اس حکم کو مانے گا۔

اسپین کے وزیر اعظم پیڈرو سانچیز نے اپنے وزیر خارجہ کے بیان کے بعد کہا کہ اس بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہئیے کہ اسپین تاریخ کی درست سمت میں رہے گا۔

میکسیکو، کولمبیا، نکاراگوا، لبیا اور فلسطین، نیدرلینڈز کے شہر دی ہیگ میں قائم عالمی عدالت انصاف کی جانب سے اس مقدمے میں شامل ہونے کی اپنی درخواستوں کے منظور ہونے کے منتظر ہیں۔

اسرائیل اس بات کی تردید کرتا ہے کہ وہ حماس کو کچلنے کے لیے اپنی فوجی کارروائی میں قتل عام کا ارتکاب کر رہا ہے۔

جنوبی اسرائیل پر سات اکتوبر کو اپنے اچانک حملے میں حماس نے بارہ سو افراد کو ہلاک کر دیا تھا اور ڈھائی سو کو یرغمال بنا لیا تھا۔ جب کہ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیل کے فضائی اور زمینی حملوں میں 36 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، تاہم غزہ کی وزارت صحت عام شہریوں اور جنگجوؤں کے الگ اعداد و شمار نہیں بتاتی۔

اسپین کے وزیر خارجہ ہوزے مینویل الباریس نے میڈریڈ میں کہا کہ ہم نے یہ فیصلہ غزہ میں جاری فوجی کارروائی کے سبب کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ “ ہم چاہتے ہیں کہ غزہ اور مشرق وسطیٰ میں امن واپس آئے” اور اس کے لیے ہم سب کو عدالت کا ساتھ دینا ہو گا۔

مقدمے میں فریق بننے کے بعد اسپین تحریری گزارشات کر سکے گا اور عوامی سماعتوں میں بول سکے گا۔

اسپین کی یہ درخواست سانچیز کے بائیں بازو کے اتحاد کی جانب سے غزہ میں قیام امن کی کوششوں کی حمایت میں تازہ ترین اقدام ہے

اسپین، آئرلینڈ اور ناروے نے 28 مئی کو تین مغربی یورپی ملکوں کی مربوط کوشش میں ایک فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا۔ اسپین اور آئرلینڈ کے ساتھ، یورپی یونین کے رکن ملک سلوینیا نے بھی اس ہفتے ایک فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا ہے۔

140 سے زیادہ ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم کر چکے ہیں، جو اقوام متحدہ کے رکن ملکوں کی کل تعداد کی دو تہائی سے زیادہ تعداد ہے، لیکن امریکہ سمیت کسی بھی بڑی مغربی طاقت نے ایسا نہیں کیا ہے۔

اسرائیل کے خلاف قتل عام کے الزام کے اس مقدمے کی ابتدائی سماعتیں ہو چکی ہیں۔ لیکن توقع یہ ہے کہ عدالت کسی حتمی فیصلے تک پہنچنے میں کئی برس لگا سکتی ہے۔

الباریس نے کہا کہ اسپین کی حکومت کے اس فیصلے کا فوری مقصد اسرائیلی وزیر اعظم بن یامن نیتن یاہو پر دباؤ بڑھانا ہے کہ وہ رفع میں خوں ریزی روکنے کے لیے عدالت کے عبوری احکامات کی تعمیل کریں۔

اسرائیل نے جنوبی شہر رفع میں مئی کے اوائل میں بقول اس کے محدود کارروائی کے لیے فوج بھیجی تھی۔ لیکن اس کی فوجیں اب شہر کے مرکزی حصوں تک میں کارروائیاں کر رہی ہیں۔

نیتن یاہو کو بین الاقوامی فوجداری عدالت یا آئی سی سی کی جانب سے ایک الگ چیلنج کا بھی سامنا ہے۔ جس کے وکیل، اسرائیلی رہنما اور حماس عسکریت پسند گروپ کے رہنماؤں سمیت دیگر کے وارنٹ گرفتاری کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلیٗ آئی سی سی کی توثیق کرتی ہے لیکن عدالت خود مختار ہے۔

اس رپورٹ کے لیے مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG