رواں سال مئی میں 'اسپیس ایکس' کی خلائی گاڑی کے ذریعے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن جانے والے ناسا کے خلا باز دو ماہ مدار میں گزارنے کے بعد دو اگست کو زمین پر واپس آ رہے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق امریکی خلا باز روبرٹس باب بینکن اور ڈگلس ہرلی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک نجی کمپنی 'اسپیس ایکس' کے فالکن نائن راکٹ کے ذریعے خلائی اسٹیشن کے لیے روانہ ہوئے تھے۔ ہرلی اور باب بینکن سابق فوجی پائلٹ ہیں۔
خلا بازوں کے لیے فالکن نائن میں تمام ضروری سہولتوں سے آراستہ اور خصوصی طور پر ڈیزائن کردہ کپیسول موجود ہے۔
خلا بازوں نے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر منتقل ہونے سے قبل 19 گھنٹے اس خصوصی کیپسول میں گزارے تھے اور اسی اثنا میں یہ کیپسول خلائی اسٹیشن سے جڑ گیا تھا۔
ناسا ترجمان کا کہنا ہے کہ روبرٹس باب بینکن اپنے ساتھی خلا باز ڈگلس ہرلی کے ہمراہ 21 جولائی کو خلائی اسٹیشن سے روانہ ہونے سے قبل آخری مرتبہ اسپیس واک کے لیے تیار ہیں۔
ادھر بوئنگ کمپنی اسپیس ایکس کے مقابلے میں اپنا سسٹم تیار کر رہی ہے۔ اس کے حوالے سے توقع کی جا رہی ہے کہ بوئنگ اگلے سال خلا بازوں کے ساتھ اپنی سی ایس ٹی 100 اسٹار لائنر وہیکل سے سفر کا آغاز کرے گی۔
ناسا کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اسپیس ایکس کے خلائی سفر سے پرائیویٹ اداروں کے لیے بھی خلا میں جانے کے دروازے کھل گئے ہیں۔
امریکی خلائی ادارے ناسا نے 2011 میں اپنا خلائی شٹل پروگرام بند کر دیا تھا جس کے بعد امریکی خلا باز روسی راکٹس کے ذریعے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن روانہ ہوتے اور واپس آتے تھے۔
ناسا نے خلائی شٹل پروگرام بند کرنے کے ساتھ ہی یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ پرائیوئٹ کمرشل پارٹنرز کے ساتھ مل کر اس منصوبے کو دوبارہ شروع کرے گا۔
دس سال بعد یہ پہلا موقع تھا جب امریکی خلا باز امریکی سرزمین سے خلا کے لیے روانہ ہوئے۔ اسپیس ایکس اسی لانچنگ پیڈ سے خلائی سفر پر روانہ ہوا تھا جہاں سے نیل آرم اسٹرانگ اپالو گیارہ کے ذریعے پہلی مرتبہ چاند پر پہنچے تھے۔
اسپیس ایکس نامی کمپنی کیلی فورنیا کے ایک ارب پتی ایلن مسک کی ملکیت اور خلا بازی کے شعبے میں آنے والی دنیا کی پہلی پرائیویٹ کمپنی ہے۔
ناسا نے خلائی اسٹیشن تک انسانوں کو لے جانے کی اجازت 2013 میں دی تھی۔ اس مقصد کے تحت تین ارب ڈالرز کی فنڈنگ کی گئی جس میں اسپیس ایکس کی ڈیزائنگ، تعمیر، آزمائش اور دوبارہ قابل استعمال کیپسول کی تیاری شامل تھی۔