تیزی سے پھیلنے والے ہلاکت خیز کرونا وائرس سے سب سے زیادہ جانی اور معاشی نقصان اٹھانے والا ملک امریکہ ہے، جسے دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے بڑی کساد بازاری کا خدشہ ہے۔ صدر ٹرمپ وائرس سے پہنچنے والے نقصان کا ذمہ دار چین کو ٹھہراتے ہوئے، کہہ چکے ہیں کہ اسے یہ قیمت چکانا ہو گی۔
چین پر دو طرح کے الزام لگائے جاتے ہیں۔ اول یہ کہ اس نے دنیا کو بر وقت وائرس کے پھیلاؤ سے آگاہ نہیں کیا اور دوسرا یہ کہ کرونا چینی شہر ووہان میں واقع اس لیبارٹری سے نکلا جہاں وائرسوں پر تحقیق کی جاتی ہے۔
امریکی وزیر خارجہ پومپیو نے حال ہی میں کہا ہے کہ امریکہ کے پاس یہ شواہد موجود ہیں، جو اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ وائرس ووہان کی وائرالوجی لیباٹری سے برآمد ہوا تھا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ واضح نہیں ہے کہ وائرس جان بوجھ کر پھیلایا گیا یا بدانتظامی کے سبب وہاں سے لیک ہوا، کیونکہ ان کے بقول، چین میں لیبارٹریوں کی سیکیورٹی کے فول پروف ہونے پر سوالات موجود ہیں۔
دوسری جانب چین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس ایک امریکی فوجی خاتون ووہان لے کر آئی تھی جو وسط اکتوبر میں ووہان میں عالمی فوجی کھلیوں میں شرکت کرنے والے تین سو امریکی فوجیوں کے دستے میں شامل تھی۔ اس میں بعدازاں پازیٹو ٹیسٹ رپورٹ ہوا تھا۔ چینی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ اس کے بعد سے علاقے میں وائرس پھیلنا شروع ہوا۔ امریکہ اس کی تردید کرتا ہے۔
کئی تجزیہ کار یہ بھی کہتے ہیں کہ چین کی لیبارٹریوں میں وائرس بنانے کے تجربات کیے جاتے ہیں جنہیں بوقت ضرورت ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔ کرونا بھی ایک ایسا ہی وائرس ہے جو بے احتیاطی سے لیبارٹری سے لیک ہوا یا جان بوجھ کر تجربے کے ایک حصے کے طور پر لیک کیا گیا۔
ووہان کی وائرالوجی لیب کے ڈائریکٹر نے ایک چینی چینل سے بات کرتے ہوئے لیب میں وائرس بنانے کے الزام کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ابھی انسان، علم اور ذہانت کی ترقی کے اس مقام تک نہیں پہنچا کہ وہ لیبارٹری میں وائرس تیار کر سکے۔
واشنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ جانوروں پر تحقیق کرنے والی لیبارٹریوں میں ریسرچ ختم ہونے کے بعد بعض بدعنوان کارکن ان جانورں کو پیسے کمانے کے لیے کھلی مارکیٹ میں بیچ دیتے ہیں۔ یہ جانور بعض اوقات بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت وائرس سے متعلق امریکی عہدے داروں کے الزامات کی تائید نہیں کرتا۔ ادارے کا کہنا ہے کہ وائرس لیب میں بنانے یا لیک ہونے کے مستند شواہد ابھی تک سامنے نہیں آئے۔
8 مئی کی ایک رپورٹ میں ڈبلیو ایچ او نے قیاس ظاہر کیا ہے کہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ میں ووہان کی اس ہول سیل مارکیٹ کا مرکزی کردار ہے جہاں زندہ جنگلی جانوروں کی خرید و ٖفروخت ہوتی تھی۔
عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ بہت حد تک یہ امکان موجود ہے کہ وائرس اس مارکیٹ میں کسی جنگلی جانور سے انسان کو منتقل ہوا ہو۔ اگر ایسا نہیں بھی ہوا تو بھی اس مارکیٹ نے وائرس کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، کیونکہ وائرس کے ابتدائی متاثرین اسی مارکیٹ کے آس پاس رپورٹ ہوئے تھے۔
چین نے اس مارکیٹ کو جنوری میں بند کر دیا تھا اور زندہ جنگلی جانوروں کی خرید و فروخت پر عارضی پابندی لگا دی تھی۔
صحت کے عالمی ادارے کے خوراک اور وائرسوں کے ایک ماہر ڈاکٹر پیٹر بن ایمبارک کہتے ہیں کہ یہ بالکل واضح ہے کہ ووہان کی ہول سیل مارکیٹ نے وائرس کے پھیلاؤ میں کردار ادا کیا۔ ہمیں یہ معلوم نہیں کہ اس کی نوعیت کیا تھی، آیا وائرس وہاں سے نکلا یا اس کے پھیلاؤ کا سبب بنا، یا یہ محض اتفاق تھا کہ وائرس کے ابتدائی مریض اس کے آس پاس سے ملے۔
جنیوا میں ایک نیوز بریفنگ میں انہوں نے بتایا کہ یہ بھی واضح نہیں ہے کہ مارکیٹ میں وائرس زندہ جانوروں سے پہنچا یا کوئی متاثرہ دکاندار یا خریدار اسے مارکیٹ میں لایا، جہاں سے وہ دوسرے لوگوں میں منتقل ہو گیا۔
انہوں نے بتایا کہ وائرس کا ماخذ ڈھونڈنے میں گہری تحقیق کی ضرورت ہے۔ اس میں وقت لگ سکتا ہے۔
سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ میں 2012 میں پھیلانے والے وائرس سارک کے ماخذ کا پتا چلانے میں پورا ایک سال لگا تھا۔ پھر کہیں جا کر معلوم ہوا تھا کہ وہ اونٹوں سے آیا ہے۔
ڈاکٹر ایمبارک کا کہنا تھا کہ یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ وائرس کہاں سے آیا۔ اس کے بعد ہی ہمیں یہ پتا چل سکے گا کہ اس نے کس طرح انسان کے جسمانی نظام سے مطابقت پیدا کر کے اس میں داخل ہونے کی صلاحیت پیدا کی۔
کرونا وائرس پر کئی ملکوں میں ریسرچ کی جا رہی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت کرونا وائرس کی تین اقسام فعال ہیں، جن میں سے بی اور سی ٹائپ یورپ اور امریکہ کو متاثر کر رہی ہے؛ جب کہ چین میں زیادہ تر مریض اے ٹائپ وائرس کے تھے۔
ڈاکٹر ایمبارک نے بتایا کہ چین میں بھی کرونا پر کئی حوالوں سے ریسرچ کی جا رہی ہے۔
چین نے 31 دسمبر کو صحت کے عالمی ادارے کو اس وقت وائرس کے پھیلاؤ سے آگاہ کر دیا تھا، جب ووہان میں اس کا دائرہ پھیل رہا تھا۔ واشنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق، چین نے 3 جنوری کو وائٹ ہاؤس کو بھی وائرس سے خبردار کر دیا تھا۔ اس لیے کئی تجزیہ کار نکتہ چینی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وائرس کے خلاف اقدامات میں تاخیر کی وجہ سے امریکہ میں اس کی تباہ کاریوں کا دائرہ زیادہ وسیع ہوا۔
چین میں کرونا وائرس سے پہلی ہلاکت جنوری کے اوائل میں ہوئی۔ یہ ایک خریدار تھا جو زندہ جانوروں کی مارکیٹ سے مچھلی خریدنے آیا تھا۔ یورپ میں بھی یہ وائرس جنوری میں پہنچ چکا تھا۔ فرانس میں وائرس کی پہلی تصدیق 25 جنوری کو ایک سیاح میں ہوئی جو پیرس میں سیاحت کی غرض سے آیا تھا۔ اسی عرصے میں اٹلی سے بھی وائرس کی تصدیق کی اطلاعات آئیں۔
یورپ میں گزشتہ سال کے آخر میں ڈاکٹروں نے ایک پر اسرار وبا کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ تنفس کے نظام پر حملہ آور ہوتا ہے، جسے اس سے قبل نمونیہ سمجھا جا رہا تھا۔
امریکہ میں کرونا سے پہلی ہلاکت ریاست واشنگٹن میں 26 فروری کو ہوئی۔ اس لحاظ سے امریکہ میں وائرس کا پھیلاؤ یورپ سے ایک مہینے کے بعد شروع ہوا۔ چین میں کرونا پر کنٹرول کیا جا چکا ہے، جب کہ یورپ میں اس کی شدت بتدریج کم ہو رہی ہے۔ اس گراف کو پیش نظر رکھتے ہوئے ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ میں مئی کے آخر تک عالمی وبا کا زور ٹوٹنے کی شروعات ہو سکتی ہے۔
دنیا کے مختلف علاقوں میں وائرس کے انداز اور پھیلاؤ کو سامنے رکھتے ہوئے کچھ ماہرین نےیہ قیاس ظاہر کیا ہےکہ کرونا قدرتی طور پر پیدا ہونے والا وائرس ہے جس کا جنم ایک خاص سازگار فطری ماحول بننے سے ہوا ہے۔ تاہم، ابھی اس بارے میں تحقیق ہونا باقی ہے۔