گزشتہ تقریباً نصف صدی، جب سے میں نے امریکہ کو اپنا گھر بنایا ہے، پہلی بار میں بے روزگاری الاؤنس کے لیے درخواست دینےکا سوچ رہا ہوں۔
یہ الفاظ ہیں پاکستانی امریکی شہری، شہزاد چوہدری کے جو ان لاکھوں پاکستانی تارکین وطن میں شامل ہیں جو کامیابی کا خواب سجائے امریکہ آتے ہیں اور محنت و مشقت سے اپنے اور اپنے خاندان کے لئے ایک بہتر مستقبل کی جستجو کرتے ہیں۔
شہزاد چوہدری جو کہ ٹرانسپورٹ کے شعبے میں خودکار ملازم ہیں، ان تین کروڑ تیس لاکھ امریکی شہریوں میں شامل ہیں جن کے لیے کرونا وائرس کے بحران کے نتیجے میں آمدنی کے ذرائع اچانک منجمد ہوگئے۔
بیروزگاری کے رجحان کے حوالے سے حال ہی میں دو رپورٹیں سامنے آئیں۔ روزنامہ دی واشنگٹن پوسٹ کے ایک سروے کے مطابق، 77 فی صد بے روزگار افراد یقین رکھتے ہیں کہ انہیں ان کی کھوئی ہوئی ملازمتیں واپس مل جائیں گی، جبکہ شکاگو یونیورسٹی کے بیکر فریڈمین انسٹیٹیوٹ کے مطابق، روزگار کے 42 فیصد مواقع یکسر ختم ہونے کا خدشہ ہے۔
واشنگٹن میٹرو ایریا، جس میں وفاقی دارالحکومت، میری لینڈ اور ورجینیا کی ریاستیں شامل ہیں، یہاں بہت سے پاکستانی آباد ہیں۔ ان کی مجموعی تعداد یا ان کے سلسلہ روزگار پر کوئی تحقیق نہیں ہوئی۔ لیکن، ان کا شمار امریکہ کی کامیاب ترین تین کمیونٹیز میں ہوتا ہے۔
عرصہ دراز سے مقیم پاکستانیوں کے مطابق، یہاں 10 سے 20 فیصد لوگ مالی طور پر انتہائی کامیاب ہیں اور تقریبا 40 فیصد مڈل کلاس میں آتے ہیں، جبکہ تقریباً 40 % کے قریب لوگ ایسے ہیں جو محنت مشقت سے یا خودکار ملازمت کے ذریعے روزانہ کی بنیاد پر اجرت کماتے ہیں۔
شہزاد چوہدری 45 سال سے واشنگٹن میں مقیم ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ ایسے بہت سے لوگوں کو جانتے ہیں جنہوں نے کبھی بھی ان کی طرح بے روزگاری الاؤنس کیلئے درخواست نہیں دی اور ہمیشہ محنت کرکے اپنے لئے روزی کمائی ہے۔
جہاں تک لوگوں کے ترقی کی راہ پر پھر سے گامزن ہونے کا سوال ہے، شہزاد چوہدری نے بتایا کہ انہیں امریکہ کی معیشت پر پورا اعتماد ہے کہ امریکہ اقتصادی طور پر اس نقصان پر قابو پا لے گا۔ لیکن، یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ معیشت جلد بحال ہوگی۔
ورجینیا میں رہنے والے پاکستانی امریکی، سید حسین جو کہ ہنڈا گاڑیوں کی کمپنی سے وابستہ ہیں، کہتے ہہیں کہ انہوں نے گزشتہ چار دہائیوں میں کبھی بھی بےروزگاری الاؤنس کا نہیں سوچا۔
وہ کاروباری تجربے کی روشنی میں کہتے ہیں کہ امریکہ کا ترقی کی راہ پر پھر سے آنے کا سفر بتدریج ہوگا، کیونکہ اس میں بہت سارے عوامل کارفرما ہوں گے۔ اس لیے حتمی طور پر یہ کہنا مشکل ہے کہ ہم کب معمول کی اقتصادی زندگی کی طرف لوٹیں گے۔
ویسے تو پاکستانی امریکی پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں، لیکن نیویارک کو پاکستانی امریکی کمیونٹی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ اور نیویارک ہی کووڈ نائنٹین کی سب سے زیادہ زد میں آنے والی ریاست ہے۔
نیویارک میں سکونت اختیار کرنے والے پاکستانی امریکن کہتے ہیں کہ انہیں اپنی کمیونٹی پر فخر ہے کہ صحت عامہ سے وابستہ ڈاکٹروں اور ورکروں نے بڑی تعداد میں اس ریاست کے کرونا وائرس کے بحران سے نمٹنے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔
نیویارک میں مقیم پاکستانی صحافی محسن ظہیر کہتے ہیں کہ پاکستانی امریکی کمیونٹی میں ایسے افراد کا تناسب زیادہ ہے جن کی آمدنی کا دارومدار روزانہ کی محنت اور مزدوری پر ہے۔
ان کے مطابق، پاکستانی نژاد لوگ زیادہ تر ریستوران، تعمیرات اور ٹرانسپورٹ کے شعبوں جیسا کہ ییلوکیب، لیموزین اور اوبر سے منسلک ہیں۔ اور اس کام کی نوعیت کی وجہ سے بہت سے لوگ کووڈ نائنٹین کا شکار بھی ہوئے ہیں۔
اگر ان کی مالی مشکلات کی بات کی جائے تو دو ٹریلین ڈالرز سے زائد پیکج کے تحت بہت لوگوں کو کچھ ریلیف تو ملا ہے، لیکن یہ امداد اقتصادی مواقع کے یکسر غائب ہو جانے کا ازالہ نہیں کر سکتی۔ اس سلسلے میں پے چیک کے پروگرام کی سہولت بھی کچھ مددگار ہے، لیکن جب کاروبار ہی بند ہو جائے تو مالکان کو ایک مستقل تذبذب اور پریشانی کی کیفیت کا سامنا ہے۔
جہاں تک بے روزگاری کا تعلق ہے، محسن نے کہا کہ بہت سے محنت کش لوگوں کو بےروزگاری الاؤنس کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ بہت سے لوگ مجھ سے رابطہ کرتے ہیں، جو اس سلسلے میں معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ دہائیوں سے ان لوگوں نے نیویارک کو اپنا گھر بنایا ہے اور یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں اقتصادی کارروائیاں ہمیشہ جاری رہتی ہیں۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ اس وقت سوشل ڈسٹینسنگ اور کرونا وائرس کی وبا نے زندگی کے پہیے کے جیسے جام ہی کر دیا ہے۔
یہی حال کچھ چھوٹے درجے کے کاروباری مالکان کا ہے، کیونکہ معمول کے حالات میں نیویارک میں کاروبار تقریباً سارا سال نکتہ عروج پر رہتا ہے اور بہت سے لوگوں کو کبھی کمرشل یا رعایتی قرضہ لینے کی نوبت نہیں آتی۔
ورجینیا میں رئیل اسٹیٹ اور گھروں کی فائنانسنگ سے وابستہ ماہر، جمال بلوچ کہتے ہیں کہ پاکستانی کمیونٹی عام طور پر چیلنجوں سے گھبراتی نہیں ہے؛ اور انہیں امید ہے کہ وہ اس بحران کے بعد اقتصادی ترقی کی راہ پر پھر سےگامزن ہوں گے۔
ان کے بقول، ''اس جمود کی صورت حال سے پاکستانی کمیونٹی کو یہ بات لازمی سیکھنا چاہیے کہ ٹیکس فائل کرتے وقت اپنے مستقبل کو سامنے رکھیں، تاکہ ضرورت کے وقت کاروبار کو چلانے کے لیے قرضوں جیسی سہولیات سے مستفید ہو سکیں''۔