رسائی کے لنکس

ہمارا لنگڑا بھی سب آموں پر بھاری ہے


آم کے متعلق مشہور شاعر اور انشا پرداز مرزا غالب نے کہا تھا کہ میٹھے ہوں اور بہت ہوں۔ بلاشبہ جنوبی ایشیا، بالخصوص پاکستان اور بھارت میں آم بہت پیدا ہوتے ہیں اور میٹھے بھی بہت ہوتے ہیں۔ اتنے میٹھے کہ اگر انہیں روایتی انداز میں آلتی پالتی مار کر کھایا جائے تو اس کے رس سے انگلیاں چپک جاتی ہیں۔

لیکن ادھر امریکہ میں یہ دونوں باتیں نہیں ہیں۔ یہاں آم نہ تو بہت نظر آتے ہیں اور نہ ہی زیادہ میٹھے ہوتے ہیں۔ یہاں گراسری اسٹوروں پر دیگر پھلوں کے ڈھیر تو دکھائی دیتے ہیں لیکن آم ذرا کم کم ہی نظر آتے ہیں اور وہ بھی کسی کونے کدرے میں۔ جنوبی ایشیا سے آنے والے جب ان آموں کو کھاتے ہیں تو انہیں اپنے وطن کے آم بہت یاد آتے ہیں۔

امریکہ کی مارکیٹ میں زیادہ تر آم لاطینی امریکہ سے آتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لاطینی ممالک میں دنیا کا چالیس فی صد آم پیدا ہوتا ہے۔ اکثر آم تو اتنے خوش رنگ اور خوشنما ہوتے ہیں کہ دل چاہتا کہ انہیں ڈیکوریشن پیس کر طرح سجا کر رکھ دیا جائے۔ لیکن انہیں کھاتے وقت اپنا چونسا، سندھڑی، انور رٹول، لنگڑا اور حتی کہ چوسنے والے دیسی آم بھی شدت سے یاد آتے ہیں۔ ان جیسی خوشبو، مٹھاس اور ذائقہ بھلا لاطینی آموں میں کہاں۔

اسلام آباد کے اتوار بازار میں آموں کا ایک اسٹال
اسلام آباد کے اتوار بازار میں آموں کا ایک اسٹال

امریکہ میں پاکستانیوں اور ہندوستانیوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔ آم سے ان کی رغبت اور محبت کے پیش نظر یہاں جنوبی ایشیائی آموں کی ایک بڑی مارکیٹ موجود ہے۔ مگر وہ لاطینی آموں کی طرح امریکی گراسری اسٹوروں پر نہیں ملتے۔ اس کی بنیادی وجہ کھانے پینے کی چیزوں سے متعلق امریکی ضابطے، قوانین اور ان کی بار برداری کے اخراجات ہیں۔ امریکہ میں درآمد کیے جانے والے پھل ایک خاص پراسسنگ کے بعد یہاں پہنچتے ہیں۔ جس کا مقصد پھلوں کو جراثیموں اور بیماریوں سے محفوظ بنانا اور ان کی شیلف لائف بڑھانا ہے۔ جب کہ جنوبی ایشیا میں امریکی معیار کی یہ سہولت ذرا کم ہے۔

جنوبی ایشیائی آموں کا چھلکا چونکہ نسبتاً پتلا اور مٹھاس زیادہ ہوتی ہے، جس کی وجہ سے ان کی شیلف لائف کم ہو جاتی ہے اور وہ جلد خراب ہو جاتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ جنوبی ایشیا اور امریکہ کے درمیان فاصلہ اتنا زیادہ ہے کہ یہاں کی منڈی میں آموں کو صرف فضائی ذریعے سے ہی پہنچایا جا سکتا ہے۔ جس سے ان پر اٹھنے والے اخراجات میں بہت زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے۔

ملتان کے ایک باغ میں آم اکھٹے کیے جا رہے ہیں۔
ملتان کے ایک باغ میں آم اکھٹے کیے جا رہے ہیں۔

اب 2011 سے پاکستان اور بھارت سے زیادہ شیلف لائف والے آم امریکہ میں امپورٹ ہو رہے ہیں۔ لیکن ان کی قیمت لاطینی آموں سے کئی گنا زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر ایک لاطینی آم پچاس سینٹ سے ایک ڈالر تک میں مل جاتا ہے جب کہ ایک پاکستانی یا ہندوستانی آم خریدار کو پانچ سے چھ ڈالر میں پڑتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔

جنوبی ایشیائی آم یہاں کے صرف چند بڑے شہروں میں ہی ملتے ہیں اور وہ بھی سیزن میں صرف دو چار بار۔ جب کہ لاطینی آم چاہے کڑاکے کی سردیاں ہوں یا جولائی کے تپتے ہوئے دن، سال بھر دستیاب رہتے ہیں۔

جنوبی ایشیا کے آموں کی امریکی مارکیٹ میں آمد بڑے دلچسپ انداز میں ہوتی ہے۔ ہوتا کچھ یوں ہے کہ کوئی ایک شخص یہ خبر لاتا ہے کہ فلاں اسٹور پر، فلاں تاریخ کو آموں کی کنسائنمٹ آنے والی ہے۔ پھر یہ اطلاع افواہ کی طرح پھیل جاتی ہے اور اسٹور کے فون کی گھنٹی بجنے لگی ہے۔ اور آم پہنچنے سے پہلے ہی ان کے آرڈر بک ہو جاتے ہیں۔

ہمارے ہاں آم ہر خاص و عام کے دل کو بھاتا ہے۔
ہمارے ہاں آم ہر خاص و عام کے دل کو بھاتا ہے۔

تاہم یہاں پاکستان کی طرح آموں کی پارٹیاں نہیں ہوتیں، بلکہ انہیں کسی کو خبر کیے بغیر چپکے سے ہی اپنے گھر میں بیٹھ کر کھا لیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ پانچ ڈالر کے آم پر کسی دوسرے کو ہاتھ صاف کرتے دیکھ کر دل بیٹھنے لگتا ہے۔

اور پھر جب چھپ چھپا کر فریج میں لگے ٹھنڈے، میٹھے، خوشبودار اور خوش ذائقہ آم کھائے جاتے ہیں تو بے اختیار منہ سے یہ نکلتا ہے کہ اپنی مٹی کے آموں کی بات ہی کچھ اور ہے۔ ہمارا تو لنگڑا بھی تمام لاطینی آموں پر بھاری ہے۔

  • 16x9 Image

    جمیل اختر

    جمیل اختر وائس آف امریکہ سے گزشتہ دو دہائیوں سے وابستہ ہیں۔ وہ وی او اے اردو ویب پر شائع ہونے والی تحریروں کے مدیر بھی ہیں۔ وہ سائینس، طب، امریکہ میں زندگی کے سماجی اور معاشرتی پہلووں اور عمومی دلچسپی کے موضوعات پر دلچسپ اور عام فہم مضامین تحریر کرتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG