رسائی کے لنکس

صومالیہ: بحری قزاقوں کے حملوں میں کمی


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

گذشتہ سال یورپی یونین نیول صومالیہ نے قزاقوں کے 176 حملے ریکارڈ کیے تھے تاہم 2012ء میں ہائی جیکنگ کی کارروائیوں کی تعداد کم ہو کر 34 رہ گئی۔

صومالیہ کے بحری قزاقوں کے حملوں میں 2012ء میں ڈرامائی کمی آئی ہے۔ یہ صورتِ حال کئی ملکوں کی بحری افواج کی کوششوں، بحری جہازوں کی طرف سے سکیورٹی کے اقدامات میں اضافے اور صومالیہ کی سر زمین پر آنے والی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے۔

کینیا میں ریجنل میرین ریسکیو کوآرڈینیشن سینٹر سے ممباسا کی بندرگاہ صاف نظر آتی ہے۔ اس سینٹر میں بیٹھے ہوئے افسر مانیٹروں پر قرنِ افریقہ کے ساحل کے ساتھ ساتھ سفر کرنے والے جہازوں پر نظر رکھتے ہیں۔

بحری جہاز اس سینٹر کو مسلسل سگنل بھیجتے رہتے ہیں، لیکن اگر بحری قزاق انہیں ہائی جیک کر لیں، تو پھر سگنل کٹ جاتا ہے اور وہ اسکرین سے غائب ہو جاتے ہیں۔

ان دنوں غائب ہونے والے جہازوں کی تعداد مسلسل کم ہو رہی ہے۔ گذشتہ سال یورپی یونین نیول صومالیہ یا ’EU NAVFOR‘ نے قزاقوں کے 176 حملے ریکارڈ کیے تھے۔ 2012ء میں ہائی جیکنگ کی کارروائیوں کی تعداد کم ہو کر 34 رہ گئی۔

جاناتھن اومونڈی ریسکیو سینٹر میں آپریشنز افسر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’اس سال ہمارے علاقے میں کوئی بحری جہاز ہائی جیک نہیں ہوا ہے۔ خشکی پر بحری قزاقی کے خلاف جو اقدامات کیے گئے ہیں ان سے بڑا فرق پڑا ہے، خاص طور سے افریقی یونین کی فورسز نے جو زمین پر تعینات ہیں بڑا اچھا کام کیا ہے۔ قزاقی ایسا مسئلہ ہے جس کی بنیادیں خشکی پر ہیں۔ سمندر میں قزاقی، زمین پر موجود مسئلے کی علامت ہے۔‘‘

بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ قزاقی میں کمی کی وجہ وہ پیش رفت ہے جو صومالیہ میں سرکاری فوجوں نے کی ہے، لیکن بعض دوسرے لوگ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اس کی اصل وجہ نیٹو اور یورپی یونین کی بحری فوج کا صومالیہ کے ساحل کا گشت ہے۔

ممباسا میں اقوامِ متحدہ کے سپورٹ آفس کے چیف افسر پیٹر میکجیحی کہتے ہیں کہ قزاقوں کی حوصلہ شکنی کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ بحری جہازوں پر پرائیویٹ سکیورٹی کے انتظامات کیا جانے لگے ہیں۔ ان کے مطابق ’’ہم اپنے تمام بحری جہازوں پر حفاظتی عملہ تعینات کر رہے ہیں، اور اس کے نتیجے میں ہائی جیکنگ کا گراف نیچے چلا گیا ہے۔‘‘

اگرچہ قزاقوں کے حملے کم ہو گئے ہیں، لیکن عدالتی دائرہ اختیار کے تنازعات جاری ہیں۔ ممباسا کی بندرگاہ سے کچھ ہی فاصلے پر قزاقی کے بہت سے ملزم شیمو لا تیوا کے قید خانے میں بند ہیں۔

’’دی پائریٹس آف صومالیہ‘‘ نامی کتاب کے مصنف جے بہادر کہتے ہیں کہ قانونی صورتِ حال پیچیدہ ہے۔ سمندر کے قانون کا خاکہ اقوامِ متحدہ کے کنونشن آن دی لا آف دی سی اور کنونشن فار سپریشن آف انلافل ایکٹس اگینسٹ میریٹائم نیویگیشن میں درج ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ’’ بنیادی بات یہ ہے کہ ان کنونشنوں کے تحت بحری قزاقی ایسا جرم ہے جو بین الاقوامی دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ اگر یہ جرم کسی ملک کی سمندری حدود کے باہر کیا جائے، یعنی 12 سمندری میل دور، تو اس کا مطلب یہ ہو گا جو کوئی بھی بحری قزاقوں کے کسی گروپ کو پکڑ لیتا ہے، اسے ان پر عدالتی اختیار حاصل ہو جاتا ہے۔‘‘

گذشتہ ہفتے، ریاست ورجینیا کی ایک عدالت نے مشتبہ صومالی قزاقوں کی یہ درخواست مسترد کر دی کہ ان پر کسی اور جگہ مقدمہ چلایا جائے۔ ان پر 2011ء میں ایک بادبانی کشتی پر حملے کے دوران چار امریکیوں کو ہلاک کرنے کا الزام ہے۔

بہادر کہتے ہیں کہ یہ ایک غیر معمولی کیس ہے۔ قانونی طور پر دعویدار ہونے کے باوجود، بیشتر ملک پکڑے ہوئے بحری قزاقوں کو اپنی تحویل میں لینے سے بچتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’’ڈیڑھ سال پہلے تک، بیشتر بحری قزاقوں کو کینیا کے حوالے کر دیا جاتا تھا، لیکن اس کی اجازت دینا، بین الاقوامی معاہدوں کو غلط معنی دینے کے مترادف ہے۔‘‘

2010ء میں، کینیا نے یورپی یونین کے ساتھ صومالی بحری قزاقوں پر مقدمہ چلانے کا سمجھوتہ ختم کردیا کیوں کہ اس کے قید خانوں میں گنجائش سے زیادہ قیدی موجود تھے۔

اس کے بعد سے جزائرِ Seychelles کا ملک مقدمے چلانے کی کوشش میں پیش پیش رہا ہے۔ اس ہفتے اس ملک نے 17 سزا یافتہ صومالی قزاقوں کو صومالیہ کے پنٹ لینڈ علاقے میں، اور ریپبلک آف صومالی لینڈ میں بھیج دیا جہاں وہ اپنی سزائیں کاٹیں گے۔
XS
SM
MD
LG