صومالیہ کے دارالحکومت موگادیشو کے ریڈیو اسٹیش کا ایک پروگرام پروڈیوسر، 24 گھنٹوں سے بھی کم عرصے کے دوران ہلاک کیا جانے والا چوتھا صحافی ہے۔ اگرچہ شہر میں مقابلتاً امن اور سکون ہے اور زندگی اپنے معمول کی جانب لوٹ رہی ہے لیکن اس جنگ زدہ ملک میں کام کرنے والے صحافیوں کی ہلاکتوں کی بڑھتی ہوئی تعدادایک نمایاں خطرے کے طور پر سامنے آرہی ہے۔
جنوری سے اب تک صومالیہ میں 13 صحافیوں کو ہلاک کیا جاچکاہے۔دارالحکومت موگادیشو میں تشدد کی اس لہر کا تازہ ترین نشانہ بننے والے صحافی حسن یوسف ہیں۔
عینی شاہدوں کا کہناہے کہ نامعلوم مسلح افراد نے ریڈیو مانٹا کے اس پروڈیوسر کو جمعے کی صبح گولیاں مار کراس وقت قتل کیا جب وہ رات کی اپنی ڈیوٹی پوری کرنے کے بعد ضلع یاقشید میں واقع ریڈیو اسٹیشن سے باہر نکلے تھے۔
نیشنل یونین آف صومالی جرنلسٹس نے صحافیوں کی ہلاکتوں کی مذمت کی ہے۔
یونین کے سیکرٹری جنرل محمد ابراہیم نے کہاہے کہ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ صحافیوں کو کون اور کیوں قتل کررہاہے، لیکن ایک چیز واضح ہے کہ انہیں ایسے علاقے میں ہلاک کیا جارہاہے جو حکومت کے کنٹرول میں ہیں۔
یہ ہلاکتیں 24 گھنٹوں سے بھی کم وقت میں ہوئی ہیں ، جب کہ اس عرصے میں صومالی دارلحکومت موگادیشو کے ایک ریستورانت میں خود کش دھماکے کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے 15 افراد میں 3 صحافی بھی شامل تھے۔
محمد ابراہیم نے یہ بھی بتایا کہ دارالحکومت موگادیشو میں زندگی بتدریج اپنے معمول پر آرہی ہےجس سے علاقے میں پانچ ماہ سے بھی کم مدت میں ٹیلی ویژن اور ریڈیو اسٹشنوں کی تعداد 11 سے بڑھ کر30 ہوگئی ہے اور جان بچا کر بھاگ جانے والے اکثر صحافی واپس آرہے ہیں۔
جنوری سے اب تک صومالیہ میں 13 صحافیوں کو ہلاک کیا جاچکاہے۔دارالحکومت موگادیشو میں تشدد کی اس لہر کا تازہ ترین نشانہ بننے والے صحافی حسن یوسف ہیں۔
عینی شاہدوں کا کہناہے کہ نامعلوم مسلح افراد نے ریڈیو مانٹا کے اس پروڈیوسر کو جمعے کی صبح گولیاں مار کراس وقت قتل کیا جب وہ رات کی اپنی ڈیوٹی پوری کرنے کے بعد ضلع یاقشید میں واقع ریڈیو اسٹیشن سے باہر نکلے تھے۔
نیشنل یونین آف صومالی جرنلسٹس نے صحافیوں کی ہلاکتوں کی مذمت کی ہے۔
یونین کے سیکرٹری جنرل محمد ابراہیم نے کہاہے کہ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ صحافیوں کو کون اور کیوں قتل کررہاہے، لیکن ایک چیز واضح ہے کہ انہیں ایسے علاقے میں ہلاک کیا جارہاہے جو حکومت کے کنٹرول میں ہیں۔
یہ ہلاکتیں 24 گھنٹوں سے بھی کم وقت میں ہوئی ہیں ، جب کہ اس عرصے میں صومالی دارلحکومت موگادیشو کے ایک ریستورانت میں خود کش دھماکے کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے 15 افراد میں 3 صحافی بھی شامل تھے۔
محمد ابراہیم نے یہ بھی بتایا کہ دارالحکومت موگادیشو میں زندگی بتدریج اپنے معمول پر آرہی ہےجس سے علاقے میں پانچ ماہ سے بھی کم مدت میں ٹیلی ویژن اور ریڈیو اسٹشنوں کی تعداد 11 سے بڑھ کر30 ہوگئی ہے اور جان بچا کر بھاگ جانے والے اکثر صحافی واپس آرہے ہیں۔