ایک نئے مطالعاتی جائزے میں بتایا گیا ہے کہ نوجوانوں کی دماغی صحت کے لیے سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم انسٹاگرام سب سے نقصان دہ اور یوٹیوب سب سے فائدہ مند ہے۔
یہ تازہ ترین درجہ بندی صحت عامہ سے متعلق برٹش رائل سوسائٹی کی ایک حالیہ رپورٹ میں کی گئی ہے۔
سوسائٹی کی چیف ایگزیکٹو شرلی کرامر کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کا شمار سگریٹ اور الکحل سے زیادہ نشہ آور چیز کے طور پر کیا جاتا ہے اور یہ لت نوجوانوں کی زندگیوں میں کچھ اس انداز سے سرایت کر چکی ہے کہ جب ان کی دماغی صحت کے مسائل پر بات کی جاتی ہے تو اسے نظرانداز کرنا ممکن نہیں ہوتا۔
ان کا کہنا تھا کہ انسٹاگرام اور سنیپ چیٹ کو دماغی صحت لیے سب سے زیادہ نقصان دہ اس لیے سمجھا جاتا ہے کیونکہ سوشل میڈیا کے یہ دونوں پلیٹ فارم تصویروں پر بہت زیادہ مرکوز ہوتے ہیں اور وہ نوجوانوں میں اپنے اندر کسی کمی کا إحساس اور فکر مندی کے جذبات پیدا کرتے ہیں۔
اس مطالعاتی جائزے کے لیے ریسرچرز نے برطانیہ کے تقریباً 15 سو نوجوانوں سے انٹرویوز کیے جن کی عمریں 14 سے 24 سال کے درمیان تھیں۔
سوال نامے میں یہ کہا گیا تھا کہ وہ سوشل میڈیا کی مختلف سائیٹس کے صحت اور جذبات پر اثرات کے حوالے سے درجہ بندی کریں۔
سوشل میڈیا کے اثرات میں پریشانی پیدا ہونا، مایوسی میں مبتلا ہونا، نیند کا اڑ جانا اور حقیقی زندگی میں خود کو تنہا محسوس کرنا شامل تھا۔
برٹس رائل سوسائٹی کے مطابق سب سے مثبت رائے یوٹیوب کے بارے میں تھی جب کہ اس کے بعد ٹوئٹر، فیس بک، سنیپ شیٹ اور انسٹاگرام کا نمبر تھا۔
سوشل میڈیا کی ایک ماہر لوسی گرین کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا ڈرامائی انداز میں ہماری زندگی کے ان پہلوؤں پر اثرانداز ہوا ہے کہ ہم کس طرح اپنے سماجی تعلقات بناتے ہیں، اپنے جذبات و خیالات دوسروں تک پہنچاتے ہیں اور ایک دوسرے سے تعلقات قائم کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کے اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں معلوم ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں سب سے زیادہ لوگ انسٹاگرام اور فیس بک کا استعمال کررہے ہیں اس لیے ان سائٹس کے ذریعے ہمارے اردگرد کے حقائق کو تروڑ مڑور کر بیان کرنا بہت آسان ہے۔
ماہرین نے اپنی رپورٹ میں یہ سفارش کی ہے کہ سوشل میڈیا کے منفی اثرات کے مقابلے لیے ضروری ہے کہ ان سائٹس پر ایسے انتباہی نوٹ دکھائے جائیں جن میں لوگوں کو سوشل میڈیا کے بہت زیادہ استعمال کے خطرات سے آگاہ کیا جائے۔
سروے میں شامل 71 فی صد افراد نے اس تجویز کی حمایت کی۔
ایک اور تجویز میں کہا گیا ہے کہ سوشل میڈیا کی کمپنیاں ایک صارف کی پوسٹ سے یہ کہہ سکتی ہیں کہ وہ پریشانی میں ہیں اور مدد کے حوالے سے مناسب طور پر ان کی راہنمائی کر سکتی ہیں۔ سروے میں شامل 80 فی صد افراد نے اس تجویز کی حمایت کی۔
جب کہ 70 فی صد رائے دہندگان نے کہا کہ سوشل میڈیا کی سائٹس یہ دیکھنا چاہیے کہ کسی تصویر کو کسی خاص مقصد کے لیے تو استعمال نہیں کیا جا رہا۔
شرلی کرامر کا کہنا تھا کہ اب سوشل میڈیا کے بڑے پیمانے پر استعمال سے ممکنہ نقصان کے شواہد بڑھ رہے ہیں اور اب جب کہ ہم دماغی صحت کے معیار میں اضافہ کررہے ہیں، ہمارے لیے یہ ضروری ہے ہم سوشل میڈیا پر نظر رکھیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم نیٹ ورکنگ پلیٹ فارموں پر مثبت پہلوؤں کی حوصلہ افزائی کریں اور ایسی صورت حال سے بچنے کی کوشش کریں جو سوشل میڈیا کو کسی نفسیاتی خلفشار کی جانب دھکیل دے جس سے ہمارے نوجوانوں کی زندگیوں میں مسائل پیدا ہوں۔