پاکستان کے وزیرِ داخلہ احسن اقبال نے کہا ہے کہ گزشتہ تین برسوں کے دوران پاکستان میں لگ بھگ 40 ارب روپے مالیت کی وہ اشیا ضبط کی گئی جو ملک میں اسمگل کی گئی تھیں۔
وزیرِ داخلہ نے یہ بات پارلیمان کی ایوانِ زیریں یعنی قومی اسمبلی میں پوچھے گئے ایک سوال کے تحریری جواب میں کہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے ہمسایہ ملکوں سے پاکستان میں اسمگل کی جانے والی اشیا کی حتمی مالیت کا اندازہ لگانا مشکل ہے کیونکہ یہ ایک غیر قانونی تجارت ہے جو بغیر دستاویزات کی عمل میں لائی جاتی ہے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ محصولات کے وفاقی ادارے 'فیڈرل بورڈ آف ریونیو' کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ تین برسوں کے دوران پاکستان میں ضبط کی جانے والے اسمگل شدہ اشیا کی مالیت 39 ارب 57 کروڑ اور 70 لاکھ روپے کے برابر تھی۔
یہ مالیت صرف ان اسمگل شدہ اشیا کی ہے جو حکام نے ضبط کیں۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ ملک میں غیر قانونی طریقے اور اسمگل کر کے لائی جانے والی اشیا کا مالی حجم اس سے کئی گنا زیادہ ہو سکتا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2015-2014ء کے مالی سال کے دوران ضبط کی گئی اسمگل شدہ اشیا کی مالیت 9 ارب 34 کروڑ 20 لاکھ روپے، 2015-2016ء میں ضبط کی گئی اشیا کی مالیت 14 ارب 34 کروڑ 30 لاکھ جبکہ 2017-2016ء میں ضبط کی گئی اشیا کی مالیت 15 ارب 65 کروڑ اور 20 لاکھ روپے تھی۔
اپنے تحریری جواب میں وزیرِ داخلہ نے کہا ہے کہ ہمسایہ ملکوں بشمول افغانستان اور ایران سے پاکستان میں ہونے والی اسمگلنگ حکومت کے لیے طویل عرصے سے تشویش کی باعث بنی ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاک افغان اور پاک ایران سرحد کے طویل ہونے اور غیر محفوظ سرحدی راستوں اور مشکل پہاڑی علاقے کی وجہ سے اسمگلنگ کی روک تھام کے ذمہ دار قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کام آسان نہیں ہے۔
انہوں نے بتایا ہے کہ اسمگلنگ کے غیر قانونی کام میں مبینہ طور ملوث گروہ بے قاعدہ سرحدی راستوں کو استعمال کرتے ہیں جہاں پاکستانی کسٹم کے عہدیدار موجود نہیں ہیں یا وہ بہت ہی قلیل تعدد میں تعینات ہیں۔
پاکستان کی طرح خطے کے دیگر ملکوں بشمول ایران، افغانستان اور بھارت کے لیے بھی سرحدوں کے آرپار ہونے والی غیر قانونی تجارت سے نمٹنا ایک چیلنج رہا ہے اور اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس چیلنج سے مشترکہ کوششوں اور تعاون سے ہی نمٹا جا سکتا ہے۔