افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقے خیبر ایجنسی سے عارضی طور پر بے گھر ہونے والے سپاہ قبائل کے افراد کی واپسی کا سلسلہ منگل کو شروع ہو رہا ہے جس کے لیے حکام کے بقول تمام انتظامات کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔
قبائلی علاقوں میں آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے کے مطابق واپسی کے عمل کے دوران ہر خاندان کو آمدو رفت کے لیے دس ہزار جب کہ مالی اعانت کے لیے 25 ہزار روپے نقد ادا کیے جا رہے ہیں۔
یہ قبائل تحصیل باڑہ سے تعلق رکھتے ہیں جو کہ صوبہ خیبر پختونخواہ کے مرکزی شہر پشاور سے ملحق ہے۔
2009ء سے خیبر ایجنسی میں شدت پسندوں کے خلاف وفتاً فوقتاً سکیورٹی فورسز کی طرف سے کی جانے والی کارروائیوں کی وجہ سے چھ سال قبل سپاہ قبیلے کے لوگ یہاں سے نقل مکانی کرتے رہے۔
کالعدم عسکریت پسند تنظیم لشکر اسلام کے سربراہ منگل باغ کا تعلق بھی اسی قبیلے سے اور سپاہ قبائل پر ماضی میں شدت پسندوں اور دیگر جرائم پیشہ عناصر کی پشت پناہی کرنے کے الزامات میں مقامی انتظامیہ کی طرف سے تادیبی کارروائیاں بھی کی جاتی رہیں۔
گزشتہ ماہ ہی سپاہ قبائل نے پولیٹیکل انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کے بعد ایک معاہدے پر اتفاق کیا تھا جس کے تحت قبائلی اپنا علاقہ دہشت گردوں کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اور انسداد دہشت گردی میں حکومت کا ساتھ دیں گے۔ علاوہ ازیں ریاست کو مطلوب کسی بھی شخص کو یہ قبائل پناہ نہیں دیں گے اور اسے حکام کے حوالے کریں گے۔
قبائلی روایت کے مطابق اگر اس معاہدے پر عملدرآمد نہیں ہوتا اور قبائلی کسی طرح کی جرائم پیشہ سرگرمی میں ملوث پائے گئے تو انھیں دس سے تیس لاکھ روپے جرمانے کا سامنا کرنا پڑے گا اور ان کے گھروں کو مسمار کر دیا جائے گا۔
قبائلیوں نے 80 ارکان پر مشتمل امن لشکر بھی تشکیل دیا ہے۔
رواں ماہ ہی باڑہ کے تجارتی مرکز کو تقریباً چھ سال کے بعد دوبارہ کھولا گیا تھا اور وہاں کاروباری سرگرمیاں شروع ہو رہی ہیں۔
پاکستانی فوج نے 2014ء میں بھی خیبر ون اور خیبر ٹو کے نام سے اس قبائلی علاقے میں آپریشنز کیے تھے اور اس دوران بھی لاکھوں افراد نے یہ علاقہ چھوڑ کر صوبہ خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں عارضی طور پر سکونت اختیار کی تھی۔
ان افراد کی واپسی بھی گزشتہ سال سے مرحلہ وار شروع ہو چکی ہے۔