رسائی کے لنکس

کراچی میں سندھ تھیٹر فیسٹیول سج گیا


ڈرامے میں سندھ کے ایک گاؤں کی کہانی اور وہیں کا پس منظر پیش کیا گیا ہے جس میں ہندو اور مسلمان ہم آہنگی اور امن کے ساتھ آباد تھے۔ لیکن، فسادات نے مذہبی تشدد کو ابھارا اور بڑے پیمانے پر مذہب کی بنیاد پر ہجرت ہوئی

ایک دور تھا کہ شام کے چار یا پانچ بجتے ہی ’پی ٹی وی‘ سے علاقائی خاص کر سندھی ڈرامے آنا شروع ہو جاتے تھے۔ سندھ کے دیہی علاقوں خاص کر اندرون سندھ تو یہ ڈرامے تھے ہی مقبول، کراچی اور دیگر بڑے شہروں میں بھی ان ڈراموں کو ذوق و شوق سے دیکھا جاتا تھا۔

ان سندھی ڈراموں نے بے شمار بڑے فنکاروں کو جنم دیا جو علاقائی ڈراموں کے ساتھ ساتھ اردو ڈراموں میں بھی بہت مقبول ہوئے، ایسے فنکاروں کی فہرست بہت طویل ہے۔ لیکن، جب سے نجی ٹی وی چینلز نے پاکستان میں قدم رکھا ہے کم از کم ’پی ٹی وی‘ سے شہرت پانے والے سندھی ڈرامے عنقا ہوگئے ہیں۔

بے شک کچھ علاقائی چینلز سندھی زبان کے ڈرامے اور پروگرام چوبیس گھنٹے پیش کرتے ہیں، لیکن پہلے جیسی بات نہیں رہی۔

ایسے میں آرٹس کونسل آف پاکستان کا یہ اقدام انتہائی قابل تعریف ہے کہ انتظامیہ نے ’سندھ تھیٹر فیسٹول‘ کا انعقاد کیا۔ پیر کو فیسٹیول کا دوسرا دن تھا۔ اس روز اسٹیج پلے ’سندھ منجھی امّاں‘ پیش کیا گیا۔

ڈرامے میں سندھ کے ایک گاؤں کی کہانی اور وہیں کا پس منظر پیش کیا گیا ہے جس میں ہندو اور مسلمان ہم آہنگی اور امن کے ساتھ آباد تھے۔ لیکن، فسادات نے مذہبی تشدد کو ابھارا اور بڑے پیمانے پر مذہب کی بنیاد پر ہجرت ہوئی۔

ڈرامہ ’سندھ منجھی اماں‘ کے مصنف علی روشن شیخ نے بتایا کہ ’’کوئی بھی زمانہ ہو، ہر زمانے کے لوگوں کے لئے دھرتی ماں کا درجہ رکھتی ہے۔ جس طرح آج ہم اپنی دھرتی سندھ سے محبت کرتے ہیں اسی طرح تقسیم ہند کے وقت بھی لوگوں نے موت کو گلے لگا کر اجرک میں سندھ کی اسی زمین میں دفن ہونا اپنے لئے اعزاز کی بات سمجھا اور اس بات کو کسی بھی صورت قبول نہیں کیا کہ وہ اپنی دھرتی چھوڑ دیں۔‘‘

ڈرامے کی ہدایت ریاض سومرو نے دی جبکہ کاسٹ میں کاجل سندھو، قاسم ریاض سومرو، ساون عاشق، شیر ولاریب سجن، رتن امجد، گل سومرو اور احمد پٹھان شامل ہیں۔

فیسٹیول اس ماہ کے آخر تک جاری رہے گا۔

XS
SM
MD
LG