وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف مقدمے کے اندراج اور اُن کی گرفتاری سے متعلق سامنے آنے والی باتوں کی تحقیقات کے لیے حکومتی وزرا پر مشتمل ایک تحقیقاتی کمیٹی بنائی جائے گی۔
منگل کو کراچی میں پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں نے کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری کے لیے آئی جی سندھ کے اغوا اور رینجرز کے دفتر میں اُنہیں زبردستی کیپٹن صفدر کی گرفتاری پر مجبور کرنے سے متعلق سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔
وزیر اعلٰی سندھ نے کہا کہ بہت سی باتیں اُن کے علم میں ہیں، لیکن فی الحال وہ میڈیا کے سامنے کچھ نہیں کہہ سکتے کیوں کہ اس سے انکوائری متاثر ہو سکتی ہے۔
یاد رہے کہ پیر کو علی الصبح کیپٹن (ر) صفدر کو کراچی کے نجی ہوٹل سے گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اُن پر بانیِ پاکستان کے مزار پر سیاسی نعرے لگانے کے الزامات کے تحت مزار کی بے حرمتی سے متعلق قانون کی خلاف ورزی پر مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ تاہم بعدازاں مقامی عدالت نے اُنہیں ضمانت پر رہا کر دیا تھا۔
پاکستان میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے الزام عائد کیا تھا کہ کیپٹن (ر) صفدر کو گرفتار کرنے سے انکار پر پاکستان رینجرز نے آئی جی سندھ کو اغوا کر کے اُنہیں گرفتاری پر مجبور کیا گیا۔
پاکستان رینجرز یا پاکستانی فوج کی جانب سے تاحال اس معاملے پر کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا۔
پریس کانفرنس کے دوران وزیر اعلٰی سندھ نے بتایا کہ سندھ پولیس نے جو کیا قانون کے مطابق کیا۔ لیکن جس طرح سے کیپٹن (ر) صفدر کو گرفتار کیا گیا اس پر خدشات ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ وقاص نامی مدعی سے کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف مقدمہ درج کروانے میں تحریک انصاف کے دو ایم پی اے اور ایک ایم این اے شامل رہے۔
وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ سب نے اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ مزار قائد پر جو ہوا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ لیکن یہ پہلی بار نہیں ہوا اس سے قبل بھی کئی بار مزار کا تقدس پامال کیا گیا ہے جو حکومتی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے ہی کیا تھا۔
اُن کے بقول مزار کے احترام کےحوالے سے قانون موجود ہے۔ پی ٹی آئی بھی ایسا کر چکی ہے لیکن اس بار جو ہوا اس کو ایشو بنایا گیا۔ جلسے کی کامیابی کو دیکھ کر اس واقعے کو بنیاد بنا لیا گیا۔
مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ یہ کراچی کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ تھا جو یہ پیغام دے رہا تھا کہ حکومت چھوڑو اور عوام کی نمائندگی کرنے والوں کو جگہ دو۔ جلسہ پی ڈی ایم کا ہو رہا تھا لیکن صبح سے وفاقی وزیر ٹی وی پر آ کر بیانات دیتے رہے۔
وزیر اعلی سندھ کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کی مزارِ قائد پر حاضری کے بعد ایک شخص پولیس کو درخواست دیتا ہے۔ پولیس تحمل سے سنتی ہے اور بتاتی ہے کہ ایسی درخواست پر وہ کارروائی نہیں کر سکتے۔
مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ شام سے لے کر رات تک پولیس پر دباؤ ڈالا جاتا رہا۔ اُن کا کہنا تھا کہ اس دوران بعض تشویش ناک باتیں سامنے آئیں جس کے بعد اس معاملے پر حقائق سامنے لانے کے لیے انکوائری کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔
وزیر اعلٰی سندھ نے کہا کہ ایک وفاقی وزیر نے باقاعدہ طور پر پولیس کو دھمکیاں دیں کہ مقدمہ درج کرو۔ اُن کا کہنا تھا کہ مدعی وقاص نے الزام لگایا ہے کہ اسے جان سے مارنے کی دھمکی دے کر درخواست دینے پر مجبور کیا گیا۔
وزیر اعلی سندھ کا کہنا تھا کہ پولیس کو ڈرانا دھمکانا منتخب نمائندوں کا کام نہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف قائم کیے گئے جھوٹے مقدمے میں کہا گیا کہ اُنہوں نے قتل کی دھمکیاں دیں۔ مدعی وقاص کی لوکیشن معلوم کی تو وہ اس وقت بقائی یونیورسٹی کے قریب تھے جو مزارِ قائد سے کافی دُور ہے۔
مراد علی شاہ نے بتایا کہ مدعی کا مزید ریکارڈ نکالا گیا تو معلوم ہوا ہے کہ اس کا کریمنل ریکارڈ ہے۔
وزیر اعلٰی سندھ نے بتایا کہ اُنہیں صبح ساڑھے چار بجے معلوم ہوا کہ کیپٹن (ر) صفدر کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور ان پر 506 بی کا مقدمہ بنایا گیا ہے اس کے بعد جو کچھ ہوا اس کا تذکرہ میڈیا پر کیا تو انکوائری متاثر ہو گی۔
وفاقی حکومت کا ردعمل
وزیر اعلی سندھ کی پریس کانفرنس کے بعد وزیر اعظم پاکستان کے معاونِ خصوصی ڈاکٹر شہباز گل نے کہا کہ وزیر اعلی سندھ کی باتوں میں تضاد ہے۔ ایک جانب وہ مانتے ہیں کہ مزار کے تقدس کو پامال کیا گیا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ دوسری طرف کہتے ہیں اس پر کارروائی نہیں ہونی چاہیے۔
شہباز گل کا کہنا تھا کہ ایک طرف وزیر اعلٰی کہہ رہے ہیں کہ پولیس ہمارے کنٹرول میں ہے اور دوسری طرف کہتے ہیں کہ اُنہیں صبح علم ہوا کہ ایف آئی آر کٹ گئی ہے۔
شہباز گل کا کہنا تھا کہ اگر یہ سب کچھ سندھ حکومت کی مرضی سے نہیں ہوا تو پولیس سے پوچھیں اور آئی جی کو فارغ کر دیں۔ جب جرم ہوا تو کارروائی پر شور کیوں مچایا جا رہا ہے۔
اُن کے بقول وزیر اعلٰی سندھ کی پریس کانفرنس سے یہ بات طے ہو گئی کہ چند شرپسند لوگ اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کر رہے تھے وہ جھوٹ تھا انہیں شرم آنی چاہیے۔