سندھ اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کے اراکین آپس میں لڑ پڑے۔ ایوان میں ایک دوسرے کو گھونسے اور مکےمارے گئے اور دھکے دیے گئے۔ جھگڑا اس وقت شروع ہوا جب ایوان میں تحریک انصاف کے وہ اراکین بھی آئے جنہوں نے پارٹی کی جانب سے اعلان کردہ امیدواروں کو سینیٹ کے انتخابات میں ووٹ نہ دینے کا اعلان کیا تھا۔
لڑائی کی سامنے آنے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اس دوران پیپلز پارٹی کے اراکین بھی بیچ بچاؤ کرتے رہے اور ان اراکین کو بچانے کی کوشش میں لگے رہے جنہوں نے اپنی ہی جماعت کے فیصلے سے بغاوت کا اعلان کیا تھا۔
تفصیلات کے مطابق تحریک انصاف کے جیکب آباد سے رکن صوبائی اسمبلی اسلم ابڑو، کراچی ضلع شرقی سے رکن کریم بخش گبول اور گھوٹکی سے رکن اسمبلی شہریار شر نے پیر کے روز اپنے الگ الگ بیان میں کہا تھا کہ وہ وفاق میں برسر اقتدار اپنی جماعت تحریک انصاف کی پالیسیوں سے بقول ان کے نالاں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے صوبہ سندھ میں تبدیلی کے لئے اب تک کچھ نہ کیا۔ اس لئے وہ ووٹ اپنی مرضی سے دیں گے جس کی آئین اور قانون انہیں اجازت دیتا ہے۔
منگل کو جب اجلاس جاری تھا تو ان اراکین پر تحریک انصاف کے ہی دیگر اراکین اسمبلی نے حملہ کردیا۔ انہیں دبوچا، زدو کوب کیا۔ اس دوران پیپلز پارٹی کے رہنما اور وزراء سعید غنی، قادر شاہ اور دیگر نے باغی اراکین کو بچانے کی کوشش کی۔ ممبران کے درمیان اس دوران لاتوں، مکوں، گھوسوں کا آزادنہ استعمال ہوا۔
ایوان میں شدید ہنگامہ آرائی کے بعد اجلاس ملتوی کر دیا گیا۔۔ جب کہ اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی نے واقعہ کی تحقیقات کا بھی حکم دے دیا ہے۔
باغی اراکین اسمبلی کو تحریک انصاف کے دیگر ارکان نے اسمبلی ایوان کے باہر بھی نہ چھوڑا اور ان کا پیچھا کیا۔ تاہم اسلم ابڑو، شہریار شر اور کریم بخش گبول بمشکل اپنی جان بچا کر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
ہنگامہ آرائی کے بعد منحرف رکن پی ٹی آئی اسلم ابڑو نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے اپنے حلقوں میں الیکشن اپنے بل بوتے پر جیتا ہے۔ تاہم وہ پی ٹی آئی میں ہی ہیں اور رہیں گے۔ لیکن سینیٹ انتخابات میں اپنا ووٹ ضمیر کے مطابق دیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اظہار رائے کا سب کو حق حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ڈھائی برس تک بقول ان کے گورنر سندھ عمران اسماعیل سے کہتے رہے کہ وہ صوبے میں میں ترقیاتی کام کرائیں۔ لیکن ترقیاتی کام کروایا گیا اور نہ ہی وفاقی وزراء نے صوبے کے دیہی علاقوں کا رُخ کیا۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ صوبائی قیادت وزیراعظم عمران خان کو دھوکے میں رکھتے ہیں۔
لیکن دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے رکن اسمبلی جمال صدیقی کا موقف ہے کہ ان کی جماعت کے رکن اسمبلی کریم بخش گبول کو ان کے کہنے کے مطابق سینیٹ انتخابات میں من پسند پارٹی کو ووٹ دینے کے لئے اغواء کیا گیا تھا۔ وہ اپنی داستان اسمبلی فلور پر بتانا چاہتے تھے، لیکن پیپلز پارٹی اراکین نے انہیں ایسا کرنے سے روکا۔ اسمبلی میں منظم منصوبہ بندی کے تحت ان پر حملہ کیا گیا اور نوبت ہتھا پائی تک جا پہنچی۔ تاہم کریم بخش کو پارٹی کے دیگر اراکین نے بحفاظت اسمبلی سے نکال کر گھر پہنچایا۔
ادھر پاکستان پیپلز پارٹی کے صوبائی وزیر اطلاعات سندھ سید ناصر حسین شاہ نے پی ٹی آئی کی جانب سے اراکین کے اغوا اور خرید و فروخت کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی جمہوریت پر یقین رکھتی ہے اور ہر کسی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ ڈالے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس پر کسی پر کوئی دباؤ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج سندھ اسمبلی کے فلور پر جو ناخوشگوار واقعہ پیش آیا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ یہ سب کچھ پہلے سے طے شدہ تھا، اور بقول ان کے جان بوجھ کر یہ ڈرامہ رچایا گیا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی حقیقت نہیں کہ پیپلزپارٹی کا اس سے کوئی تعلق ہے۔
دوسری جانب پی ٹی آئی رہنما اسمبلی اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کے لیے پہنچے تو اپوزیشن لیڈر حلیم عادل شیخ اور صحافیوں کے درمیان سوال پوچھنے پر تلخ کلامی ہو گئی جس پر صحافیوں نے احتجاج کیا اور حلیم عادل شیخ میڈیا سے گفتگو کئے بغیر ہی چلے گئے۔
واضح رہے کہ تحریک انصاف کی جانب سے سندھ میں فیصل واوڈا کو سینیٹ کا ٹکٹ ملنے پر پارٹی کے کئی اراکین اسمبلی نے کھلم کھلا مخالفت کی تھی اور اس پر اعتراض کیا تھا۔ جس میں سابق وزیر اعلیٰ سندھ اور تحریک انصاف کے رہنما لیاقت جتوئی بھی شامل ہیں۔ انہوں نے الزام عائد کیا تھا کہ ٹیکنو کریٹ کی نشست پر بقول ان کے سیف اللہ ابڑو کو ٹکٹ کے حصول کے لئے 35 کروڑ روپے خرچ کرنا پڑے۔ ان کے اس الزام پر تحریک انصاف نے ان سے وضاحت طلب کر رکھی ہے۔
اسی طرح کئی اراکین اسمبلی نے الزام عائد کیا تھا کہ اس مقصد کے لئے ان سے کوئی مشاورت بھی نہیں کی گئی۔ جب کہ بعض اراکین نے وزیر اعظم اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو خط لکھ کر گورنر سندھ کو عہدے سے ہٹانے کا بھی مطالبہ کیا تھا۔