رسائی کے لنکس

سینیٹ الیکشن: کیا سندھ سے اس بار بھی غیر متوقع نتائج سامنے آئیں گے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

تین مارچ کو سینیٹ انتخابات کے لیے سندھ میں 11 نشستوں کے لیے پولنگ ہو گی جس میں صوبائی اسمبلی کے 168 اراکین حقِ رائے دہی استعمال کریں گے۔ جب کہ اس دوڑ میں کل 17 امیدوار میدان میں ہیں۔

سندھ اسمبلی میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کو 99 نشستوں کے ساتھ واضح برتری حاصل ہے۔ مبصرین کے مطابق ایسی صورتِ حال میں پیپلز پارٹی چھ نشستیں با آسانی حاصل کرنے کی پوزیشن میں نظر آتی ہے جس میں چار جنرل نشستیں، ایک ٹیکنو کریٹ اور ایک خاتون کی نشست شامل ہے۔

پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی)، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم)، گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس (جی ڈی اے) پر مشتمل حزبِ اختلاف کا اتحاد 65 ارکان کے ساتھ چار نشستیں حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہے۔

مبصرین کے مطابق دیکھنا یہ ہے کہ ایوان میں موجود تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے تین اراکین اور متحدہ مجلسِ عمل (ایم ایم اے) کے ایک رکن کس کو ووٹ دیتے ہیں جس سے سینیٹ کے انتخابات میں سندھ سے مختلف جماعتوں کے امیدواروں کی اصل تعداد کا اندازہ ہو سکے گا۔

سات جنرل نشستوں پر 10 امیدوار

سندھ کی سات جنرل نشستوں پر 10 امیدوار انتخاب لڑیں گے۔

جنرل نشستوں پر حزبِ اختلاف کے تین امیدوار میدان میں ہیں جن میں ایم کیو ایم کے فیصل سبزواری، تحریکِ انصاف کے فیصل واوڈا، جی ڈی اے کے صدر الدین شاہ شامل ہیں۔

دوسری جانب پیپلز پارٹی نے سات جنرل نشستوں پر شیری رحمٰن، سلیم مانڈوی والا، تاج حیدر، جام مہتاب، شہادت اعوان، صادق میمن، دوست علی جیسر کو امیدوار نامزد کیا ہے۔

ٹیکنوکریٹس کی دو نشستوں پر چار امیدوار

اسی طرح ٹیکنوکریٹس کی دو نشستوں پر چار امیدوار حصہ لے رہے ہیں۔

پیپلزپارٹی کے فاروق ایچ نائیک، کریم خواجہ، پی ٹی آئی کے سیف اللہ ابڑو ٹیکنوکریٹس کی نشستوں پر امیدوار ہیں۔

تحریکِ لبیک پاکستان پہلی مرتبہ سینیٹ الیکشن میں حصہ لے رہی ہے اور ٹیکنو کریٹس کی نشست پر یشااللہ خان اس کے امیدوار ہیں۔

خواتین کی دو نشستوں پر تین امیدوار

خواتین کی دو نشستوں پر پیپلز پارٹی نے پلوشہ خان اور رخسانہ شاہ کو امیدوار نامزد کیا ہے۔ جب کہ حزبِ اختلاف کی جانب سے ایم کیو ایم کی خالدہ طیب امیدوار ہیں۔

نشستوں کی کمی و بیشی

واضح رہے کہ 2018 کے سینیٹ انتخابات میں پیپلز پارٹی ایوان میں موجود اراکین کی تعداد کے تناسب سے دو نشستیں زیادہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی تھی۔

مبصرین کے مطابق اس بار بھی اسی طرح کے امکانات سامنے آ سکتے ہیں۔

تحریکِ انصاف میں فیصل واوڈا کو سینیٹ کا ٹکٹ ملنے پر پارٹی کے کئی اراکین اسمبلی نے کھل کر مخالفت کی تھی اور ان کی نامزدگی پر اعتراض بھی کیا تھا۔ ان پر اعتراض کرنے والوں میں سابق وزیرِ اعلیٰ سندھ اور تحریکِ انصاف کے رہنما لیاقت جتوئی بھی شامل تھے۔

انہوں نے الزام عائد کیا تھا کہ ٹیکنوکریٹس کی نشست پر سیف اللہ ابڑو نے 35 کروڑ روپے خرچ کیے۔ ان کے اس الزام پر تحریکِ انصاف نے ان سے وضاحت طلب کی ہے۔

پارٹی اراکین کو کراچی میں رہنے کی غیر اعلانیہ ہدایت

ادھر پیپلز پارٹی نے بھی سینیٹ کے انتخابات میں ایم کیو ایم، ایم ایم اے اور ٹی ایل پی کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

دوسری جانب پیپلز پارٹی نے اپنے اراکین کو چار مارچ تک کراچی چھوڑ کر جانے سے غیر اعلانیہ طور پر روک دیا گیا ہے تاکہ وہ اپنا ووٹ ضرور کاسٹ کر سکیں۔

پیر صاحب پگارا کی مہم

حروں کے روحانی پیشوا پیر صاحب پگارا صدر الدین شاہ راشدی کو بھی پہلی بار ووٹ مانگنے کے لیے اراکین اسمبلی کے پاس جانا پڑا ہے۔ مبصرین کے مطابق قبل ازیں ارکان اسمبلی پیر پگارا سے ملنے کے لیے جاتے تھے۔

صدر الدین شاہ راشدی جی ڈی اے کے رکن صوبائی اسمبلی سردار علی گوہر خان کے گھر پہنچے اور ان سے ملاقات کر کے ان کے تحفظات سنے۔

اس ملاقات میں صدر الدین شاہ راشدی کے علاوہ رکنِ قومی اسمبلی سردار غوث بخش مہر اور دیگر بھی شریک ہوئے۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اس سے قبل تقریباً ہر وزیر اعظم پیر پگارا کی حمایت حاصل کرنے کنگری ہاؤس کا رخ کرتا تھا لیکن اس بار معاملہ الٹ نظر آیا ہے۔

الیکشن مہم کا خاتمہ

الیکشن کمیشن نے سینیٹ کے تمام امیدواروں کو کہا ہے کہ وہ پیر کی رات کے بعد تمام سیاسی سرگرمیاں ترک کر دیں۔

الیکشن کمیشن کے مطابق پیر کی شب 12 بجے کے بعد سیاسی سرگرمی کو غیر قانونی تصور کیا جائے گا۔

کمیشن نے خلاف ورزی پر الیکشن قوانین کے تحت کارروائی کی بھی تنبیہ کی ہے

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG