دیکھ بھال پر مامور امریکی حکومت کے ایک ادارے کا کہنا ہے کہ شمالی افغانستان میں امریکی امداد سے چلنے والے اسکولوں کی صورت حال کے جائزے سے پتا چلتا ہے کہ ’’طالب علموں اور اساتذہ کی تعداد کے بارے میں دیے گئے اعداد اور اصل حقائق میں کافی تضاد ہے‘‘۔
افغانستان میں تعمیرِ نو کے کام کے خصوصی انسپیکٹر جنرل کی جانب سے کیے جانے والے اس جائزے کا تعلق صوبہٴ بلخ کے نسبتاً پُرامن اور خوش حال علاقے سے ہے۔ ادارے نے جمعے کے روز حاصل کردہ نتائج جاری کیے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’’اوسطاً، اہل کاروں نے بتایا تھا کہ صوبہٴ بلخ میں 26 اسکولوں میں کُل 2461 بچے داخل ہیں۔ تاہم، جب جانچ پڑتال کی گئی تو معلوم ہوا کہ صرف 734 یا اندراج کیے گئے طالب علموں کا صرف 30 فی صد موجود تھا‘‘۔
ادارے کا یہ ذمہ ہے کہ وہ امریکی ٹیکس دہندگان کے اربوں ڈالر کے درست استعمال کو یقینی بنائے؛ اور لڑائی کے نتیجے میں تباہ حال اس ملک کی تعمیر نو کے لیے مختص رقوم کے استعمال کا خیال رکھے۔
ادارے کا کہنا ہے کہ ’یوایس ایڈ‘ نے ستمبر 2016ء تک افغانستان میں تعلیم کے منصوبوں کے لیے تقریباً 86 کروڑ، 80 لاکھ ڈالر جاری کیے تھے۔
ادارے نے کہا ہے کہ آٹھ اسکولوں میں طالب علموں کا 20 فی صد سے بھی کم؛ جب کہ پانچ اسکولوں میں 10 فی صد سے بھی کم اندراج پایا گیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انسپیکٹروں کو اُن 963 طالب علموں کی تفصیل نظر نہیں آئی جن کے لیے بتایا گیا تھا کہ وہ ضلع کشیدہ کے ایک اسکول میں داخل ہیں۔
ادارے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جائزے کے دوران ضلع خلم کے ایک اسکول میں رجسٹر ہونے والے 460 طالب علموں میں سے صرف 30 حاضر تھے؛ جب کہ، ہمارے دورے کے دوران اسکول میں صرف 10 طالب علم دیکھے گئے‘‘۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اسکول کے عملے نے اطلاع دی ہے کہ ہر اسکول کے لیے اوسطاً 77 اساتذہ منظور کیے جاتے ہیں۔