افغانستان میں محکمہ تعلیم کے حکام نے افغان سکیورٹی فورسز اور شدت پسند گروہوں کی طرف سے اسکولوں کو عسکری مقاصد کے لیے استعمال کرنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ صورت حال نا صرف بچوں کی سلامتی کے لیے خطرے کا باعث ہے بلکہ وہ تعلیم کے حصول سے بھی محروم رہ جاتے ہیں۔
محکمہ تعلیم کے ڈائریکٹر برائے اطلاعات کبیر اکمل نے ریڈیو لبرٹی کی افغان سروس کو جمعرات کو بتایا کہ "بدقسمتی سے افغانستان کے مختلف علاقوں میں لگ بھگ 30 اسکول ایسے ہیں جنہیں افغانستان کی سرکاری فورسز اور عسکریت پسند گروپ, عسکری مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔"
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ ' ایچ آر ڈبلیو' نے گزشتہ سال ایک رپورٹ میں کہا کہ افغانستان میں اسکولوں کو باغی گروپوں اور افغان سکیورٹی فورسز دونوں سے خطرے کا سامنا ہے۔
’ایچ آر ڈبلیو‘ نے افغان حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ سکیورٹی فورسز کو روکیں کہ وہ اسکولوں کی عمارتوں کو استعمال نا کریں۔
’ایچ آر ڈبلیو‘ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ "افغان بچوں کی تعلیم کو نا صرف طالبان سے خطرہ ہے بلکہ ان سرکاری فورسز سے بھی خطرہ ہے جو اسکولوں پر قبضہ کر لیتی ہیں۔"
رپورٹ کے مطابق"بچوں کو ان افغان فورسز سے خطرہ درپیش ہے جن کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کی حفاظت کریں۔"
افغان محکمہ دفاع کے حکام کا کہنا ہے کہ وہ ان اسکولوں کو بطور (فوجی) اڈے استعمال نہیں کر رہے بلکہ وہ انہیں طالبان کی تباہی اور ان کے قبضہ سے محفوظ رکھنے کے لیے وہاں موجود ہیں۔
افغان وزارت دفاع کے ترجمان محمد راد منش نے کہا کہ "جب دشمن ان اسکولوں کو استعمال کرتے ہیں تو ہمیں انہیں (بچوں کو) بچانا ہوتا ہے اور دشمن کو اسکولوں سے نکال باہر کرنا ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم وہاں ٹھہر جاتے ہیں۔"
مقامی حکام کا کہنا ہے کہ شمال مشرقی افغانستان میں واقع بغلان میں کم از کم دو اسکول ایسے ہیں جو کئی ماہ سے بند پڑے ہیں۔
مقامی حکام نے مزید بتایا کہ افغان فوجی ان اسکولوں کو طالبان جنگجوؤں سے ہونے والی لڑائی کے دوران استعمال کر رہے ہیں۔
محکمہ تعلیم کے عہدیداروں نے کہا کہ بغلان کے اسکولوں سے وابستہ اساتذہ نے فوج کو کئی خطوط لکھے جن میں ان اسکولوں کو خالی کرنے کا کہا گیا تھا، لیکن انہیں اس کا کوئی جواب نہیں ملا۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ سردی کے مہینوں میں طالبان کی عسکری کارروائیاں رکنے کی وجہ سے افغان فوجی یہاں سے واپس چلے گئے ہیں۔
دوسری طرف موسم سرما کی چھٹیوں کی وجہ سے اسکول بند ہیں اور اساتذہ نے اس اُمید کا اظہار کیا کہ موسم بہار میں جب اسکول دوبارہ کھلیں گے تو تعلیم کا سلسلہ موثر انداز میں دوبارہ شروع ہو جائے گا۔
افغانستان میں اتحادی حکومت کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے گزشتہ سال اسکولوں کو فوجی مقاصد کے استعمال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسکولوں اور اسپتالوں سمیت دیگر شہری مراکز کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
عبداللہ نے کہا کہ "ہم یہ نا سنیں کہ بدترین حالات میں بھی طبی مراکز یا اسکولوں کو جنگ کے لیے استعمال کیا گیا ہو۔"
طالبان کے دور حکومت کے خاتمے کے بعد گزشتہ 15 سالوں میں افغانستان میں تعلیم کے شعبے میں بہتری آئی ہے لاکھوں بچے بشمول لڑکیاں اسکولوں میں داخل ہوئی ہیں۔