کرونا کی دوسری لہر کی شدت نے دنیا بھر کو خوف زدہ کر رکھا ہے اور وائرس سے بچنے کے لیے اکثر لوگ نہ صرف غیر ضروری طور پر گھروں سے باہر نکلنے سے احتراز کر رہے ہیں بلکہ وہ گھر میں لائے جانے والے سودا سلف کے پیکٹوں کو جراثیم کش کیمیکلز سے صاف کرنے کے بعد کھولتے ہیں اور چیزوں کو خوب اچھی طرح دھولیتے ہیں۔
بعض ماہرین کہتے ہیں کہ احتیاط اچھی چیز ہے لیکن اکثر صورتوں میں گراسری کے پیکٹوں اور ڈبوں کو جراثیم کش ادویات سے صاف کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی، خاص طور پر اس وقت جب گراسری آپ خود لائے ہوں۔
صحت کے ان ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس سانس کے ذریعے پھیلنے والی وبا ہے۔ یہ وائرس کسی متاثرہ شخص کے چھینکنے، کھانسنے اور بولنے سے اس کے منہ سے خارج ہونے والے انتہائی چھوٹے چھوٹے آبی بخارات کے ساتھ فضا میں بکھر جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص اس کے قریب سانس لے رہا ہو تو وائرس اس کے جسم میں داخل ہو جاتا ہے۔ تاہم اگر دونوں نے ماسک پہنے ہوئے ہوں تو وائرس کی منتقلی کا خطرہ بہت حد تک کم ہو جاتا ہے۔ اسی طرح اگر دونوں کے درمیان چھ فٹ سے زیادہ کا فاصلہ ہو تو وائرس کی منتقلی کا امکان اور بھی محدود ہو جاتا ہے۔
متاثرہ شخص کے منہ اور ناک سے خارج ہونے والے وائرس آلود ننھے آبی بخارات ہوا میں کچھ دیر معلق رہنے کے بعد آہستہ آہستہ نیچے گر کر وہاں موجود ہر سطح پر جم جاتے ہیں۔ اگر کوئی شخص متاثرہ سطح کو چھوتا ہے تو وہ اس کے ہاتھ میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ جب وہ اپنا ہاتھ منہ کو لگاتا ہے تو وائرس سانس کے ساتھ اس کے جسم میں چلا جاتا ہے۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آپ کسی ایسی سطح کو چھوتے ہیں جسے دوسرے لوگ بھی ہاتھ لگا رہے ہوں تو پھر ضروری ہے کہ آپ اپنے ہاتھ اچھی طرح دھو لیں۔ کیونکہ کرونا وائرس کے بعض مریض ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں بظاہر بیماری کی کوئی علامت نہیں ہوتی اور وہ دوسروں کو وائرس منتقل کرنے کا سبب بن جاتے ہیں۔
کرونا وائرس کے متعلق ابھی سائنس دانوں کا علم محدود ہے۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے، اس کے بارے میں معلومات بڑھ رہی ہیں۔ شروع میں ماہرین کا خیال تھا کہ یہ مہلک وائرس مختلف سطحوں پر کئی گھنٹوں اور بسا اوقات کئی دنوں تک اپنا وجود قائم رکھ سکتا ہے۔ تاہم اب ان کا کہنا ہے کہ لیبارٹری کے مخصوص ماحول میں تو ایسا ہونا ممکن ہے، لیکن دوسرے مقامات پر وائرس زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہتا۔ اگرچہ ٹیسٹ میں وہ اس سطح پر دکھائی تو دیتا ہے لیکن وہ عموماً زندہ حالت میں نہیں ہوتا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس نسبتاً ایک کمزور وائرس ہے اور اسے زندہ رہنے کے لیے انسانی جسم درکار ہوتا ہے جس میں نشو و نما پاتا ہے اور جسم سے نکلنے کے بعد وہ زیادہ دیر تک خود کو زندہ نہیں رکھ سکتا۔
ان معلومات کے پیش نظر بعض ماہرین یہ کہتے ہیں کہ جب آپ بازار سے گراسری یا کوئی اور چیز لاتے ہیں تو یہ امکان بہت کم ہوتا ہے کہ اس کی سطح پر وائرس فعال حالت میں موجود ہو۔ چنانچہ اسے ڈس انفکٹ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ آپ اسے دھو کر استعمال میں لا سکتے ہیں۔
امریکی ادارے "سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریزرویشن" میں کووڈ-19 کے شعبے کے چیف میڈٰیکل آفیسر ڈاکٹر جان بروکز کہتے ہیں کہ لوگوں کو وہی کچھ کرنا چاہیے جس سے ان کا دل مطمٰن ہو۔
لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر لوگ گراسری کے پیکٹ کھولتے وقت اپنے چہرے کو نہیں چھوتے اور اس کے بعد اپنے ہاتھ دھو لیتے ہیں، تو میرا خیال ہے کہ اتنی ہی احتیاط کافی ہے اور انہیں گراسری کے پیکٹوں اور تھیلوں کو جراثیم کش کیمیکلز سے صاف کرنے کی ضرورت نہیں۔