پاکستان میں کرونا وائرس کی دوسری لہر کے باعث وبا سے متاثرہ افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے جب کہ ملک میں وبا سے بچاؤ کی ویکسین کی آزمائش (ٹرائل) بھی جاری ہے۔
پاکستان میں تحقیقاتی ویکسین کے اس نوعیت کے ٹرائل پہلی مرتبہ ہو رہے ہیں جس میں ایک ہزار سے زائد مرد و خواتین رضاکارانہ طور پر اس تجرباتی عمل کا حصہ بن چکے ہیں۔
پاکستانیوں کو امید ہے کہ آزمائش کا حصہ بننے کے سبب انہیں یہ ویکسین جلدی دستیاب ہو سکے گی۔
حکومت بھی ویکسین کے حصول کے لیے چین اور روس کے ساتھ رابطے میں ہے اور اس مقصد کے لیے 150 ملین ڈالرز کی رقم بھی مختص کر دی گئی ہے۔
طبی ماہرین پاکستان میں کرونا وائرس کی دوسری لہر کو گزشتہ لہر کے مقابلے میں زیادہ مہلک قرار دے رہے ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بدھ کو مرتب کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق 24 گھنٹوں کے دوران ملک بھر میں کرونا کے 33610 ٹیسٹ کیے گئے جن میں سے 2963 افراد میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوئی جب کہ وائرس سے 60 ہلاکتیں بھی رپورٹ ہوئیں۔
ملک میں کرونا سے ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 8547 ہو گئی ہے اور مجموعی کیسز چار لاکھ 26 ہزار سے بڑھ گئے ہیں۔
پاکستان میں چین کی تیارکردہ ویکسین کے ٹرائل
دوسری جانب کرونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسین کے پاکستان میں جاری تحقیقاتی تجربات میں مرد و خواتین رضاکارانہ طور پر خود کو پیش کر رہے ہیں۔
کینیڈا اور چین کی مشترکہ کمپنی 'کین سائنو بائیو' حکومت کی اجازت سے یہ ٹرائل پاکستان کے بڑے شہروں میں کر رہی ہے۔ اس ویکسین کو 'اے ڈی فائیو نوول کرونا وائرس ویکسین' کا نام دیا گیا ہے۔
اسلام آباد کے شفا ہستپال میں ویکسین کے ٹرائل آخری مراحل میں ہیں جس کے بعد حکومتِ پاکستان کو اُمید ہے کہ یہ ویکسین دستیاب ہو گی۔
شفا ہسپتال کے اعلیٰ تحقیق کار ڈاکٹر اعجاز خان کہتے ہیں کہ ویکسین کا محفوظ ہونا پہلے دو ٹرائل کے دوران ثابت ہو چکا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ تیسرے اور حتمی ٹرائلز سے اس کی افادیت کا اندازہ لگایا جانا ہے کہ یہ کرونا وائرس کے خلاف کتنی مؤثر ہے۔
انہوں نے بتایا کہ تاحال 10 ہزار سے زائد افراد کو ٹرائلز کے دوران یہ ویکسین دی گئی ہے اور ابتدائی تجربہ میں اس ویکسین کے منفی اثرات دیکھنے میں نہیں آئے۔
تاہم ان کے بقول ویکسین لینے والے پانچ سے سات فی صد افراد میں پہلے روز معمولی بخار کی علامات ظاہر ہوئیں۔
ڈاکٹر اعجاز نے بتایا کہ ویکسین لگانے والوں کا ایک سال تک مشاہدہ کیا جائے گا۔
ویکسین لگنے سے پہلے رضاکا کی تحریری رضامندی لی جاتی ہے اور رضاکاروں کو آگاہی کے ساتھ شرائط بھی بتائی جاتی ہیں۔
ویکسین لگوانے والے رضاکار کیا کہتے ہیں؟
ویکسین کے لیے آنے والے رضاکاروں کا کہنا ہے کہ وہ اس لیے آئے ہیں تاکہ پاکستان میں جلدازجلد یہ ویکسین آ جائے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ایک رضا کار سجاد احمد راضی کہتے ہیں کہ وہ لاک ڈاؤن اور سماجی دوری کے باعث خاصے مشکل سے گزرے ہیں اور بہت شدت سے ویکسین کا انتظار کر رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ کسی نہ کسی کو تو خود کو آزمائش کے لیے پیش کرنا ہے تاکہ باقی سب کی بہتری ہو سکے۔
وہ کہتے ہیں کہ ویکسین لگانے سے وہ کسی خوف کا شکار نہیں ہیں البتہ کچھ مزید عرصہ وہ احتیاط کرتے رہیں گے جب تک ان کے اینٹی باڈیز نہیں بن جاتے۔
سجاد احمد کہتے ہیں کہ اگر ان کی اینٹی باڈیز بن جاتی ہیں تو وہ کرونا وائرس کے خوف سے باہر نکل سکیں گے اور آزادانہ میل جول رکھیں گے۔
رضاکار عائشہ کہتی ہیں کہ انہیں کام کی غرض سے باہر جانا ہوتا ہے اور وہ چاہتی تھیں کہ کرونا وائرس کے خوف سے آزاد ہو سکیں۔
عائشہ کہتی ہیں کہ ویکسین کے بعد وہ اس خوف سے خود آزاد محسوس کرتی ہیں اگرچہ ابھی ان کے جسم میں اس کی مدافعت پیدا ہونے میں 14 دن لگیں گے۔
حکومتِ پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ ویکسین عوام کو مفت فراہم کی جائے گی جو کہ پہلے مرحلے میں صحت کے شعبے سے وابستہ اور معمر افراد کو دی جائے گی۔
'ویکسین کے بارے میں خدشات فطری ہیں'
گیلپ پاکستان کے ایک سروے میں کرونا وائرس ویکسین کی مخالفت بھی سامنے آئی اور 37 فی صد افراد کا کہنا ہے کہ وہ ویکسین دستیاب ہونے کے بعد اس کا استعمال نہیں کریں گے۔
'گیلپ' کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر بلال گیلانی کا کہنا تھا کہ "ویکسین کی مخالفت کو دیکھتے ہوئے یہ تشویش ناک اعداد وشمار ہیں جو نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے لیے باعث تشویش ہے کیوں کہ اس وبا کو پھیلنے سے روکنے کا انحصار ویکسین پر ہے۔"
ڈاکٹر اعجاز خان کہتے ہیں کہ یہ بہت ضروری ہے کہ لوگوں کو ویکسین کے بارے میں تمام معلومات فراہم کریں اور اس کے ممکنہ اثرات سے آگاہ کیا جا سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ رضاکاروں کے خدشات و سوالات کا جواب دیا جانا چاہیے تاکہ ویکسین کے بارے میں ان کے ذہن میں تمام چیزیں واضح ہوں تاکہ وہ دیگر لوگوں کو بھی درست معلومات دیں۔
انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس کے لئے آنے والے رضاکاروں کو باقاعدہ یہ معلومات دی جاتی ہیں کہ وہ کیوں اس عمل کا حصہ ہیں اور تحقیق کا یہ عمل کب تک چلے گا۔
انہوں نے کہا کہ غلط معلومات ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ لوگوں کو یہ شعور ہونا چاہیے کہ دنیا میں کئی دہائیوں سے مختلف بیماریوں سے بچاؤ کے لیے ویکسین بنتی رہی ہیں۔
ڈاکٹر اعجاز کہتے ہیں کہ نئی ویکسین کے بارے میں سوالات اور خدشات فطری ہیں جس کا حل بروقت اور صحیح معلومات کی فراہمی سے کیا جاسکتا ہے۔